بارگاہ میں عجزو انکساری کا اظہار ہے۔ ‘‘ یہ سن کر میں نے کہا: میری مراد کھانے کی ضروری اَشیاہیں ۔اُس نے پھر پوچھا: کون سا کھانا؟ جو جسموں کی غذا ہے وہ یا دِلوں کی؟تومیں نے کہا: اپنی بات واضِح کرو!تواُس نے مجھے بتایا: ’’ جسموں کی غذا تو کھاناپینا ہے جبکہ دلوں کی غذاگناہ چھوڑنا اوراپنے عیوب دُور کرنا، محبوب کے دیدارسے لطف اندوز ہونا اور مقصود کے حصول (یعنی مُراد پوری ہونے) پر راضی ہونا ہے لیکن یہ چیزیں حاصِل کرنے کے لئے خشوع، پرہیزگاری، ترکِ تکبُّر ، مالک و مولیٰعَزَّوَجَلَّکی طرف رُجوع اور ظاہر و باطن میں صِرف اُسی پر بھروسا کرنا ہے۔ ‘‘ پھر وہ کنیز نما ز کے لئے کھڑی ہو گئی، اُس نے پہلی رَکعت میں پوری سُوْرَۃُ الْبَقْرَہپڑھی، پھر سُوْرَۂ اٰلِ عِمْرٰن شروع کر دی، پھر ایک سورت ختم کر کے دوسری سورت شروع کرتی رہی یہاں تک کہ سُوْرَۃُ اِبْرٰاھِیْمکی آیت نمبر 17پر پہنچ گئی:
یَّتَجَرَّعُهٗ وَ لَا یَكَادُ یُسِیْغُهٗ وَ یَاْتِیْهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَّ مَا هُوَ بِمَیِّتٍؕ-وَ مِنْ وَّرَآىٕهٖ عَذَابٌ غَلِیْظٌ(۱۷)
ترجَمۂ کنزالایمان: بمشکل اس کا تھوڑا تھوڑا گھونٹ لے گا اورگلے سے نیچے اُتارنے کی اُمید نہ ہوگی اوراسے ہرطرف سے موت آئے گی اور مرے گا نہیں اوراس کے پیچھے ایک گاڑھا عذاب۔
پھر وہ روتی ہوئی اِسی آیت کودہراتی رہی یہا ں تک کہ بے ہو ش ہو کر زمین پر گرپڑی جب میں نے اُسے ہلایا جلایا تو اس کی رُوح قفسِ عنصری سے پرواز کر چکی تھی ۔ (اَلرّوضُ الفائق ص ۴۱) اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔اٰمِیْن بِجا ہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
دست بستہ التجا ہے ہم سے راضی ہو کے جا بخشوانا حشر میں ہاں تو مَہِ غفران ہے
السلام اے ماہِ رَمضاں تجھ پہ ہوں لاکھوں سلام ہِجر میں اب تیرا ہر عاشق ہوا بے جا ن ہے (وسائلِ بخشش ۷۰۴)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
’’ اَلودَاع ماہِ رَمضان ‘‘ کاشرعی ثبوت کیا ہے؟:
’’ اَلْوَدَاع ماہِ رَمضان ‘‘ کے اشعار پڑھنا سننایقینا بہت عمدہ کام ہے ، یہ فرض یا واجب یا سنت نہیں بلکہ صرف مباح وجا ئز ہے۔اورمباح کام (یعنی ایسا عمل جس پر ثواب ملے نہ گناہ اس) میں اگر اچھی نیت شامل کر لی جا ئے تو وہ مستحب وکارِ ثواب بن جا تا ہے۔ لہٰذا ’’ الوداع ماہِ رمضان ‘‘ بھی اچھے مقصد مَثَلاً گناہوں اور کوتاہیوں پر ندامت اور آیندہ نیکیوں بھرا رمضان گزارنے کی نیت سے پڑھنا سننا کارِ ثواب ہے۔اعلٰی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ’’ خطبۃُ الوداع ‘‘ کے متعلق کئے جا نے والے سوال کے جواب میں فرماتے ہیں : وہ( یعنی ’’ الوداع ‘‘ کا خطبہ) اپنی ذات میں مُباح ہے، ہر مباح نیتِ حسن (یعنی اچھی نیت) سے مستحب ہو جا تا ہے۔ اورعروض و عوارِض خلاف(یعنی شرعی ممنوعات پر مشتمل ہو نے ) سے مکروہ سے حرام تک (جیسے مردوں اور عورتوں کا ایک ساتھ ہونا یا اسے یعنی الوداع کے خطبے کو واجب وضروری سمجھنایاعورتوں کا راگ سے اس طرح پڑھنا کہ ان کی آواز مردوں تک پہنچے یااَلوداع کے اَشعار کاخلافِ شرع ہونا ) ۔ (فتاوٰی رضویہ ج ۸ ص ۴۵۲) بہرحال اَلْوَدَاع ماہِ رمضان کے کہنے کا موجودہ انداز نیا ہی سہی مگر شرعاً اس میں حرج نہیں ۔ یاد رہے! مباح کے کرنے یانہ کرنے پرملامت نہیں ہوتی ۔ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمہے: ’’ حلال وہ جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کیا اور حرام وہ جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کیا اور جس سے خاموشی فرمائی وہ مُعاف ہے۔ ‘‘ (تِرمذی ج ۳ ص ۲۸۰حدیث۱۷۳۲)
مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان حدیثِ پاک کے اس حصے، ’’ جس سے خاموشی فرمائی وہ معاف ہے۔ ‘‘ کے تحت فرماتے ہیں : یعنی جن چیزوں کو نہ قراٰنِ کریم نے حلال یا حرام کہا نہ حدیثِ پاک نے یعنی ان کا ذِکر ہی کہیں نہیں وہ حلال ہیں ۔ یہاں ’’ مرقات([1]) ‘‘ اور ’’ اَشِعَّۃُ اللَّمْعات([2]) ‘‘ اور ’’ لمعات ([3]) ‘‘ نے فرمایا کہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اصل، اشیا میں اِباحت ہے یعنی جس سے قراٰن و حدیث میں خاموشی ہو وہ حلال ہے۔ آم، مالٹا یوں ہی پلاؤ زَردہ، فرنی، یوں ہی لٹھا ململ۔یوں ہی میلاد شریف و فاتحہ کی شیرینی سب حلال ہیں ، کیوں ؟اس لیے کہ انہیں قراٰن و حدیث نے حرام نہیں کیا، یہ اسلام کاکلی(یعنی اکثری ) قانون ہے۔
(مراٰۃ المناجیح ج۶ص۴۳)
میرے آقا اعلٰی حضرت ، امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کے والد ماجد رئیسُ الْمُتَکَلِّمِیْن حضرت مولانانقی علی خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان لکھتے ہیں : اصل اشیا میں اباحت ہے یعنی جس عمل کے فعل وترک(یعنی کرنے اور چھوڑنے ) میں شرعاً کچھ حرج نہ پایا جا ئے وہ شرعاً مباح وجا ئز ہے۔(اُصُوْلُ الرَّشاد ص۹۹ مُلَخَّصاً) (اس