فیضان رمضان

سرورِ دیں لیجے اپنے ناتوانوں کی خبر

نفس و شیطاں سیِّدا! کب تک دباتے جا ئیں گے

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 

(۱۱) مسلسل چالیس سال تک روزے :

حضرت سَیِّدُنا داوٗد طائیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمسلسل چالیس سال تک روزے رکھتے رہے مگر آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکے  اِخلاص کا یہ عالَم تھاکہ اپنے گھر والوں تک کو خبر نہ ہونے دی۔ کام پر جا تے ہوئے دوپہر کا کھانا ساتھ لے لیتے اور راستے میں  کسی کو دے دیتے، مغرِب کے  بعد گھر آکر کھانا کھا لیا کرتے۔  (تاریخ بغداد ج۸ص۳۴۵)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

سیدنا داوٗد طائی کے  نفس کشی کے  واقعات:

سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّوَجَلَّ! اِخلاص ہو توایسا ! حضرت سَیِّدُنا داوٗد طائیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکو اپنے نفس پر زبردست قابو تھا۔  ’’ تذکِرۃُ الْاَولیائ ‘‘  میں  ہے:  ایک بار گرمی کے  موسم میں  دھوپ میں  بیٹھے مشغولِ عبادت تھے کہ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکی والدۂ محترمہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِانے فرمایا:  بیٹا!سائے میں  آجا تے تو بہتر تھا۔ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے جواب دیا:   ’’ امی جا ن! مجھے شرم آتی ہے کہ اپنے نفس کی خواہش کے  لئے کوئی قدم اٹھاؤں ۔ ‘‘

            ایک بارآپ کا پانی کا گھڑا دھوپ میں  دیکھ کر کسی نے عرض کی:  یاسَیِّدی ! اِس کو چھاؤں میں  رکھا ہوتا تو اچھا تھا۔ فرمایا:  جب میں  نے رکھا تو اُس وقت یہاں چھاؤں تھی لیکن اب دھوپ میں  سے اٹھاتے ہوئے ندامت محسوس ہو رہی ہے کہ میں  صرف اپنے نفس کی راحت کی خاطر گھڑا ہٹانے میں  وَقت صَرف کروں ۔

   ایک مرتبہ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِدھوپ میں  قراٰنِ پاک کی تلاوت کر رہے تھے ۔ کسی نے سائے میں  آنے کی درخواست کی۔ تو فرمایا:   ’’ مجھے اِتباعِ نفس ناپسند ہے۔‘‘  یعنی نفس بھی یہی مشورہ دے رہا ہے کہ چھاؤں میں  آجا ؤ مگر میں  اِس کی پیروی نہیں کر سکتا۔ اسی رات آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکا وصال ہو گیا۔ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکے  انتقال کے  بعد غیب سے آواز سنی گئی:   ’’ داوٗد طائی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنی مراد کو پہنچا کیوں کہ اس کا پروَرْدگار عَزَّوَجَلَّ اس سے خوش ہے۔ ‘‘  (تذکرۃ الاولیا ء ج۱ص۲۰۱۔۲۰۲مُلَخّصاً)  

اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے  صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجا ہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

اپنی نیکیوں کا اعلان:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! حکایت نمبر 11 سے ان لوگوں کو ضرور عبرت حاصل کرنی چاہئے جو بلا ضرورت  اپنی نیکیوں کا اِعلان کر کے  ریاکاری کا خطر ہ مول لیتے ہیں ،  مَثَلاً کوئی کہتا ہے:  میں  ہر سال رجب،  شعبان اور رَمضان کے  روزے رکھتا ہوں ،  کوئی بولتا ہے:  میں  اتنے سال سے ہر ماہ ایامِ بیض کے  روزے رکھ رہا ہوں ،  کوئی اپنے حج کی تعداد کاتو کوئی عمرے کی گنتی کا اعلان کرتا ہے۔ کوئی کہتا ہے:  میں  روزانہ اتنے دُرُود شریف پڑھتا ہوں ،  اتنے عرصے سے دلائل الخیرات شریف کا وِرد کررہا ہوں ۔ اتنی تلاوت کرتا ہوں ،  ہر ماہ فلاں مدرَسے کو اتنا چندہ پیش کرتا ہوں ۔ اَلْغَرَض خواہ مخواہ اپنے نوافل،  تہجُّد،  نفلی روزوں اور عبادتوں کا خوب چرچاکیا جا تا ہے۔خدانخواستہ ریاکاری میں  جا پڑے تو اس کا عذاب برداشت نہیں ہو سکے  گا۔

         سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:   ’’  جُبُّ الْحُزْن ‘‘  سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ طلب کرو! صحابۂِ کرام عَلَيهِمُ الّرِضْوَاننے عرض کی:  یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!  ’’  جُبُّ الْحُزْن ‘‘  کیا ہے ؟ فرمایا:   ’’ یہ جہنَّم میں  ایک وادی ہے جس (کی سختی ) سے جہنَّم بھی روزانہ چار سو بار پناہ مانگتا ہے،  اس میں  وہ قاری داخل ہوں گے جو اپنے اعمال میں  ریا کرتے ہیں ۔ ‘‘  ( ابنِ ماجہ ج۱ص۱۶۷حدیث۲۵۶)

ریا کاری کی تعریف:

رِیا کی تعریف یہ ہے:  ’’  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رِضا کے  علاوہ کسی اور اِرادے سے عبادت کرنا۔  ‘‘  گویا عبادت سے یہ غرض ہو کہ لوگ اس کی عبادت پر آگاہ ہوں تاکہ وہ ان لوگوں سے مال بٹورے یا لوگ اس کی تعریف کریں یااسے نیک آدَمی سمجھیں یا اسے عزّت وغیرہ دیں ۔   (اَلزّواجر ج۱ص۷۶)

حفظ کی خوشی میں  تقریب:

آج کل مدنی مُنّا یا مدنی منی ا گر حفظِ قراٰن مکمَّلکر لے تو اسکے  لئے شاندار تقریب کی جا تی ہے، اگر اس سے مقصود ریاکاری اور دکھاوا نہ ہو،  اچھی اچھی نیتوں کے  ساتھ محض رضائے الٰہی کیلئے اِنعقا د کیا جا ئے تو یہ ایک نہایت عمدہ عمل ہے۔ ہو سکے  تو اپنے حافظ مَدَنی منے کی دینی ترقی کے  لئے اُسے بُزُرگوں کی بارگاہوں میں  پیش کر کے  عمر بھر قراٰنِ کریم یاد رہنے اور اس کے  احکامات پر عمل کرنے کی دُعائیں بھی لینی چاہئیں ۔ اِن شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ اس طرح خوب بَرَکتیں ملیں گی۔

 

Index