فیضان رمضان

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

مانگی مراد نہ ملنا بھی اِنعام!:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے! مَدَنی قافلے کی برکت سے کس طرح من کی مرادیں برآتی ہیں ! اُمیدوں کی سوکھی کھیتیاں ہری ہو جا تی ہیں ، دلوں کی پژ مردہ کلیاں کھل اٹھتی ہیں اور خانماں برباد وں کی خوشیاں لوٹ آتی ہیں ۔ مگر یہ ذِہن میں  رہے کہ ضروری نہیں ہر ایک کی دلی مراد لازِمی ہی پوری ہو ۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ بندہ جو طلب کرتا ہے وہ اُس کے  حق میں  بہتر نہیں ہوتا اور اُس کا سُوال پورا نہیں کیا جا تا،  اُس کی منہ مانگی مراد نہ ملنا ہی اُس کیلئے اِنعام ہوتا ہے ۔ مَثَلاً یہی کہ وہ اولادِ نرینہ مانگتا ہے مگر اُس کو مَدَنی منیوں سے نوازا جا تا ہے اور یہی اُس کے  حق میں  بارہابہتر بھی ہوتا ہے۔چُنانچِہ پارہ دوسرا سُوْرَۃُ الْبَقْرَہکی آیت نمبر 216 میں  ربُّ العِباد عَزَّ وَجَلَّ کا ارشادِ حقیقت بنیاد ہے:

عَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَیْــٴًـا وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْؕ- (پ۲، البقرۃ: ۲۱۶)

ترجَمۂ کنزالایمان: قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں پسند آئے اور وہ تمہارے حق میں  بُری ہو۔

بیٹی کے  فضائل:

یا درکھئے! بیٹی کی فضیلت کسی طرح کم نہیں اس ضمن میں  مُلا حَظہ ہوں تین فرامین مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:  {۱} جس نے اپنی تین بیٹیوں کی پرورش  کی وہ جنت میں  جا ئے گا اور اسے راہِ خدا عَزَّ وَجَلَّ میں  اُس جہاد کرنے والے کی مثل اَجر ملے گا جس نے دورانِ جہاد روزے رکھے اورنَماز قائم کی۔ (اَلتَّرغِیب وَالتَّرہِیب ج۳ص۴۶حدیث۲۶)   {۲}   جس کی تین بیٹیاں ہوں ،  وہ ان کے  ساتھ اچھا سلوک کرے تو اُس کیلئے  جنت واجب ہوجا تی ہے۔ عرض کی گئی:  اور  دو ہوں تو؟ فرمایا:  اور دو ہوں تب بھی۔ عرض کی گئی:  اگر ایک ہو تو؟ فرمایا:   ’’  اگر ایک ہو تو بھی۔ ‘‘  (مُعجَم اَوسَط ج۴ ص۳۴۷ حدیث ۶۱۹۹ مُلَخّصاً)   {۳} جس نے اپنی دو بیٹیوں یا دو بہنوں یا دو رشتے دا ر بچیوں پر ثواب کی نیّت سے خرچ کیا یہاں تک کہ اللہ تَعَالٰی انہیں بے نیاز کر دے(یعنی ان کا نِکاح ہوجا ئے یا وہ صاحِب مال ہوجا ئیں یا ان کی وفات ہو جا ئے)   تووہ اس کیلئے آگ سے آڑ ہوجا ئیں گی۔ (مسند امام احمد  ج۱۰ص ۱۷۹ حدیث ۲۶۵۷۸)

روزہ نہ رکھنے کی مجبوریاں :

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! بعض مجبوریاں ایسی ہیں جن کے  سَبَب رَمَضانُ الْمُبارَک میں  روزہ نہ رکھنے کی اِجا زت ہے۔ مگر یہ یاد رہے کہ مجبوری میں  روزہ مُعاف نہیں وہ مجبوری ختم ہوجا نے کے  بعد اس کی قضا رکھنا فرض ہے،  البتّہ قضا کا گناہ نہیں ہوگا جیسا کہ  ’’ بہارِ شریعت جلداوّل صفحہ1002 ‘‘  پر  ’’ دُرِّمختار ‘‘  کے  حوالے سے لکھاہے کہ سفر وحمل اور بچے کو دُودھ پلانا اورمرض اور بڑھاپا اور خوفِ ہلاکت و اِکراہ ( یعنی اگر کوئی جا ن سے مار ڈالنے یا کسی عضو کے  کاٹ ڈالنے یا سخت مار مارنے کی صحیح دھمکی دے کر کہے کہ روزہ توڑ ڈال اگر روزہ دار جا نتا ہو کہ یہ کہنے والا جو کچھ کہتا ہے کر گزرے گا تو ایسی صورت میں  روزہ فاسِد کر دینا یاترک کرنا گناہ نہیں ۔  ’’ اِکراہ سے مراد یہی ہے ‘‘ )  ونقصانِ عقل اور جہاد یہ سب روزہ نہ رکھنے کے  عذر ہیں اِن وجوہ سے اگر کوئی روزہ نہ رکھے تو گُناہ گار نہیں ۔ (دُرِّمُخْتار ج۳ص۴۶۲)

شرعی سفر کی تعریف:

دَورانِ سفربھی روزہ نہ رکھنے کی اِجا زت ہے۔ سفر کی مقدار بھی ذِہن نشین کر لیجئے۔ سَیِّدی و مرشدی امامِ اَہلِ سنت، اعلٰی حضرت،  مولانا شاہ احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنکی تحقیق کے  مطابق شرعاً سفر کی مقدارساڑھے ستاون میل  (یعنی تقریباً 92 کلو میٹر ) ہے جو کوئی اِتنی مقدار کا فاصِلہ طے کرنے کی غرض سے اپنے شہر یا گاؤں کی آبادی سے باہرنکل آیا ،  وہ اب شرعاً مسافر ہے، اُسے روزہ قضا کرکے  رکھنے کی اِجا ز ت ہے اور نَماز میں  بھی وہ قصر کرے گا۔مسافر اگر روزہ رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے مگر چار رَکعت والی فرض نمازوں میں  اُسے قصر کرنا واجب ہے،  نہیں کرے گا تَو گناہ گار ہوگا۔ اور قصدًا چار پڑھیں اور دو پر قعدہ کیا تو فرض ادا ہو گئے اور پچھلی دو رَکْعَتیں نفل ہوگئیں مگر گنہگار و عذابِ نار کا حقدار ہے کہ واجب ترک کیا لہٰذا توبہ کرے (اور نماز کا اِعادہ بھی واجب ہے)  اور دورَکعت پرقعدہ نہ کیا تو فرض ادا نہ ہوئے اور وہ نماز نفل ہوگئی ۔(بہارِ شریعت ج۱ص۷۴۳مُلَخّصاً)  ’’  اور جہالتاً (یعنی علم نہ ہونے کی وجہ سے)  پوری (چار) پڑھی تو اس نَماز کا پھیرنابھی واجب ہے ‘‘  (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۸ص۲۷۰مُلَخّصاً)  یعنی معلومات نہ ہونے کی بِنا پر بھی آج تک جتنی نمازیں سفر میں  پوری پڑھی ہیں ان کا حساب لگا کرچار رکعتی فرض کی جگہ قصر کی نیّت سے دو دوفرض لوٹانے ہوں گے۔ ہاں مسافر کو مقیم امام کے  پیچھے فرض چار پورے پڑھنے ہوتے ہیں ،  سنتیں اور وتر لوٹانے کی ضرورت نہیں ۔  قصر صرف ظہر ، عصر اور عشا کی فرض رَکعتوں میں  کرنا ہے۔ یعنی اِن میں  چار رَکعت فرض کی جگہ دو رَکعت ادا کی جا ئیں گی، باقی سُنتوں اور وِتر کی رَکعتیں پوری اداکی جا ئیں گی،  دُوسرے شہر یا گاؤں وغیرہ میں  پہنچنے کے  بعد جب تک پندرہ دِن سے کم مُدَّت تک قِیام کی نیت تھی مسافر ہی کہلائے گا اورمسافرکے  اَحکام رہیں گے اور اگر مسافر نے وہاں پہنچ کر پندرہ دِن یا اُس سے زِیادہ قیام کی نیت کرلی تو اب  مسافر کے  اَحکام ختم ہو جا ئیں گے اور وہ مقیم کہلائے گا۔ اب اسے روزہ بھی رکھنا ہوگا اور نَماز بھی قصر نہیں کرے گا۔  سفر کے  متعلق ضروری اَحکام کی تفصیلی معلومات حاصل کرنے کیلئے بہار ِ شریعت

Index