فیضان رمضان

حضرتِ سَیِّدُنا اَنَس بِن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں :  ایک بارجبماہِ رَمضان شریف  تشریف لایا تو سلطانِ دوجہان ، رحمتِ عالمیان صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:  ’’  تمہارے پاس یہ مہینا آیا ہے جس میں  ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو شخص اِس رات سے محروم رہ گیا ، گویا تمام کی تمام بھلائی سے محروم رہ گیا اور اِس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا مگر وہ شخص جو حقیقۃً محروم ہے۔ ‘‘   (ابنِ مَاجَہ ج۲ص۲۹۸حدیث۱۶۴۴)

سبز جھنڈا:

ایک فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا حصہ ہے:   ’’ جب شب قدر آتی ہے تو حکمِ الٰہی سے (حضرتِ)  جبریل (عَلَيْهِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام)  ایک سبز جھنڈا لئے فرشتوں کی بہت بڑی فوج کے  ساتھ زمین پرنزول فرماتے ہیں (اور ایک روایت کے  مطابق:  ’’  اِن فرشتوں کی تعداد زمین کی کنکریوں سے بھی زیادہ ہوتی ہے ‘‘ ) ([1])  اور وہ سبز جھنڈا کعبۂ مُعَظّمہ پر لہرادیتےہیں۔ (حضرتِ) جبریل(عَلَيْهِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام) کے  سو بازُو ہیں ،  جن میں  سے دوبازُو صرف اِسی رات کھولتے ہیں ،  وہ بازُو مشرق ومغرب میں  پھیل جا تے ہیں ، پھر( حضرتِ) جبریل(عَلَيْهِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام)  فرشتوں کو حُکم دیتے ہیں کہ جو کوئی مسلمان آج رات قیام ، نماز یا ذِکرُاللہ عَزَّوَجَلَّ میں  مشغول ہے اُس سے سلام ومصافحہ کرونیز اُن کی دُعاؤں پر آمین بھی کہو ۔ چنانچہ صبح تک یہی سلسلہ رہتا ہے ۔ صبح ہونے پر(حضرتِ) جبریل(عَلَيْهِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام)  فرشتوں کو واپسی کا حکم دیتے ہیں ۔ فرشتے عرض کرتے ہیں :  اے جبریل (عَلَيْهِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام)  اللہ  عَزَّوَجَلَّ نے اُ مَّتِ محمدیہ(عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام) کی حاجتوں کے  بارے میں  کیا معاملہ فرمایا؟( حضرتِ)  جبریل  (عَلَيْهِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام)  فرماتے ہیں :   ’’  اللہ  عَزَّوَجَلَّ نے اِن لوگوں پر خصوصی نظر کرم فرمائی اور چار قسم کے  لوگوں کے  علاوہ سب کو معاف فرما دیا۔ ‘‘  صحابۂ کرامعَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننے عرض کیـ:  ’’  یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وہ چار قسم کے  لوگ کون ہیں ؟ ‘‘  ارشاد فرمایا:   {۱}  ایک تو عادی شرابی  {۲}  دُوسرے والدین کے  نافرمان  {۳} تیسرے قطع رِحمی کرنے والے (یعنی رشتے داروں سے تَعلُّقات توڑنے والے)  اور  {۴}  چوتھے وہ لوگ جو آپس میں  عداوت رکھتے ہیں اور آپس میں  قطع تعلق کرنے والے۔ ‘‘   (شُعَبُ الْایمان ج۳ص۳۳۶حدیث۳۶۹۵)

لڑائی کا وبال:

حضرتِ سَیِّدُنا عبادَہ بن صامترَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے رِوایت ہے کہ میٹھے میٹھے آقا،  مکی مَدَنی مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ باہر تشریف لائے تاکہ ہم کو شب قدر کے  بارے میں  بتائیں  (کہ کس رات میں  ہے)  دومسلمان آپس میں  جھگڑ رہے تھے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:   ’’ میں  اِس لئے آیا تھا کہ تمہیں شبِ قدر بتاؤں لیکن فلاں فلاں شخص جھگڑرہے تھے،  اِس لئے اِس کا تعین اُٹھالیا گیا، اورممکن ہے کہ اِسی میں  تمہاری بہتری ہو،  اب اِس کو (آخری عشرے کی)  نویں ،  ساتویں  اور پانچویں را توں میں  ڈھونڈو۔ ‘‘  ( بُخاری ج ۱ ص ۶۶۳ حدیث۲۰۲۳)

            مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان مراۃ جلد 3 صفحہ 210پراس حدیثِ پاک کے  تحت فرماتے ہیں : یعنی میرے علم سے اس کا تقرر دور کردیا گیا اور مجھے بھلا دی گئی ،  یہ مطلب نہیں کہ خود شب قدر ہی ختم کردی اب وہ ہوا ہی نہ کرے گی۔ معلوم ہوا کہ دنیاوی جھگڑے منحوس ہیں ان کا وبال بہت ہی زیادہ ہے ان کی وجہ سے اللہ  کی آتی ہوئی رحمتیں رُک جا تی ہیں ۔

ہم تو شریف کے  ساتھ شریف اور۔۔۔:

میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! مسلمانوں کا آپس میں  لڑائی جھگڑا کرنا رَحمت سے دُوری کا سَبَب بن جا تا ہے۔ مگر آہ ! اب کون کس کو سمجھائے! آج تو بڑے فخرسے کہا جا  رہا ہے کہ  ’’ میاں اِس دُنیا میں  شریف رہ کر تَو گزارہ ہی نہیں ،  ہم تو شریفوں کے  ساتھ شریف اور بدمعاش کے  ساتھ بد معاش ہیں !  ‘‘  صرف اس قول ہی پر اِکتفا نہیں ،  اب تو معمولی سی بات پر پہلے زَبان درازی ، پھر دست اندازی ، اس کے  بعد چاقو بازی بلکہ گولیاں تک چل جا تی ہیں ۔اَفسوس ! آج کل بعض مسلمان کبھی پٹھان بن کر کبھی پنجا بی کہلا کر ، کبھی مہاجر ہوکر ، کبھی سندھی اور بلوچ قومیَّت کا نعرہ لگا کر ایک دُوسرے کا گلاکاٹ رہے ہیں ،  ایک دوسرے کی اَملاک واَموال کو آگ لگا رہے ہیں ۔ آپس میں  ایک دوسرے کے  خلاف صرف نسلی اور لسانی فرق کی بنا پر محاذ آرائی ہورہی ہے۔ مسلمانو! آپ تو ایک دوسرے کے  محافظ تھے آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالیشان تویہ ہے کہ:   ’’ مؤمنوں کی مثال تو ایک جسم کی طرح ہے کہ اگر ایک عضو کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم اُس تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔ ‘‘  ( بُخاری ج۴ص۱۰۳حدیث۶۰۱۱)

ایک شاعر نے کتنے پیارے انداز میں  سمجھایاہے:

مبتلائے  دَرد  کوئی  عضو  ہو  روتی  ہے  آنکھ

کس  قدر  ہمدرد  سارے  جسم  کی  ہوتی  ہے  آنکھ

            میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! ہمیں  آپس میں  لڑائی جھگڑا کرنے کے  بجا ئے ایک دوسرے کی ہمدردی اور غمگساری کرنی چاہئے۔مسلمان ایک دوسرے کو



[1]    مسند احمد ،ج۳،ص۶۰۶، حدیث ۱۰۷۳۹۔

Index