خدا کے نیک بندے نیکیوں میں لگ گئے لیکن گنہ کرتا رہا عطارؔ ناداں یارسولَ اللّٰہ
(وسائل بخشش ص۶۷۸)
قلبِ عاشق ہے اب پارہ پارہ اَلوَداع اَلوَداع آہ! رَمضاں
(اِس کلام میں بیچ میں کہیں کہیں مصرعے کسی نامعلوم شاعر کے ہیں ، کلام نہایت پُر سوز تھا اِس لئے کسی کی فرمائش پر اُسی کلام کی مدد سے اپنے متلاطم جذبات کو الفاظ کے قالب میں ڈھالنے کی سعی کی ہے)
قلب عاشق ہے اب پارہ پارہ اَلوداع اَلوداع آہ! رَمضاں
کلفت([1]) ہجر و فرقت نے مارا اَلوداع اَلوداع آہ! رَمضاں
تیرے آنے سے دل خوش ہوا تھا اور ذَوقِ عبادت بڑھا تھا
آہ! اب دل پہ ہے غم کا غَلبہ اَلوداع اَلوداع آہ! رمضاں
مسجدوں میں بہار آگئی تھی جوق در جوق آتے نمازی
ہو گیا کم نمازوں کا جذبہ اَلوداع اَلوداع آہ! رَمضاں
بزمِ اِفطار سجتی تھی کیسی! خوب سحری کی رونق بھی ہوتی
سب سماں ہو گیا سُونا سُونا اَلوداع اَلوداع آہ! رَمضاں
تیرے دیوانے اب رَو رہے ہیں مضطرب سب کے سب ہو رہے ہیں
ہائے اب وقت رخصت ہے آیا اَلوداع اَلوداع آہ! رَمضاں
تیرا غم ہم کو تڑپا رہا ہے آتش شوق بھڑکا رہا ہے
پھٹ رہا ہے ترے غم میں سینہ اَلوداع اَلوداع آہ! رَمضاں
یاد رَمضاں کی تڑپا رہی ہے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی ہے
کہہ رہا ہے یہ ہر ایک قطرہ اَلوداع اَلوداع آہ! رَمضاں
دل کے ٹکڑے ہوئے جا رہے ہیں تیرے عاشق مرے جا رہے ہیں
رو رو کہتا ہے ہر اک بچارہ اَلوداع اَلوداع آہ! رَمضاں
حسرتا ماہِ رَمضاں کی رخصت قلب عشاق پر ہے قِیامت
کون دے گا انہیں اب دِلاسا اَلوداع اَلوداع آہ! رَمضاں
کوہِ غم عاشقوں پر پڑا ہے ہر کوئی خون اب رو رہا ہے
کہہ رہا ہے یہ ہر غم کا مارا اَلوداع اَلوداع آہ! رَمضاں
تم پہ لاکھوں سلام آہ! رَمضاں اَلوداع آہ! اے رب کے مہماں !
جا ؤ حافِظ خدا اب تمہارا اَلوداع اَلوداع آہ! رَمضاں
نیکیاں کچھ نہ ہم کر سکے ہیں آہ! عصیاں میں ہی دن کٹے ہیں
ہائے! غفلت میں تجھ کو گُزارا اَلوداع اَلوداع آہ! رَمضاں
واسطہ تجھ کو میٹھے نبی کا حشر میں ہم کو مت بھول جا نا
روزِ محشر ہمیں بخشوانا اَلوداع اَلوداع آہ! رَمضاں
جب گزر جا ئیں گے ماہ گیارہ تیری آمد کا پھر شور ہوگا
کیا مری زندگی کا بھروسا اَلوداع اَلوداع آہ! رَمضاں
ماہِ رَمضاں کی رنگیں فضاؤ! ابر رَحمت سے مملو ہواؤ