فیضان رمضان

ایک گھر بنائے گا ‘‘  (ابنِ ماجہ ج۱ص۴۱۹حدیث۷۵۷)   {۲۳} اپنے پسینے اور منہ کی رال وغیرہ کی آلودَگی سے مسجِد کے  فرش یا دری یا کارپیٹ کو بچانے کیلئے صِرف اپنی ذاتی چادر یاچٹائی پر ہی سوؤں گا {۲۴} بہ نیت حیا ، سونے میں  پردے میں  پردہ رہے اس کا ہر طرح سے خیال رکھوں گا( سوتے وقت پاجا مے پر تہبند باندھ کر مزید اوپر سے چادر اوڑھ لینا مفید ہے۔جا معۃ المدینہ،  مَدَنی قافلے اورگھر وغیرہ میں  ہر جگہ سوتے وقت اس کا خیال رکھنا چاہئے )   {۲۵}  مسجد میں  گندگی نہ ہو اس لئے وُضو خانہ فنائے مسجِد میں  ہونے کی صورت میں  تیل کنگھی وَہیں کروں گا اور جو بال جھڑیں گے اُٹھا لوں گا ( اگر کوئی وُضو کیلئے منتظر ہو تو نشست سے ہٹ کر تیل کنگھی کیجئے)   {۲۶} بِغیر اجا زت کسی کی کوئی چیز استعمال نہ کر کے  خود کو گناہ سے بچاؤں گا مَثَلاًاِستنجا  خانے جا نے کیلئے دوسروں کے  چپل وغیرہ استعمال نہیں کروں گا بلکہ  {۲۷} جن سے پہلے سے لین دین اور دوستی نہیں تھی ان سے ہلکی پھلکی چیزیں بھی عاریۃً نہ مانگ کر خود کو خلافِ مروَّت کام سے بچاؤں گا اور اگر وہ چیز اُس کے  استعمال میں  ہے تو اُسے پریشانی نہ پہنچانے کی نیّت بھی مد نظر رکھوں گا لہٰذا چپل،  چادر،  تکیہ وغیرہ کسی چیز کیلئے دوسروں سے سُوال نہیں کروں گا  {۲۸} وَقف اِملاک کو نقصان سے محفوظ رکھنے،  نمازیوں کو اَذیت سے بچانے اور مسجد انتظامیہ کو پریشانی سے دور رکھنے کے  لئے کھانا فنائے مسجد میں  وہ بھی کھانے کی مخصوص دری یا دسترخوان وغیرہ بچھا کر اس پر کھاؤں گا،  نماز کی دری پرہر گز نہیں کھاؤں گا {۲۹} کھانا کم ہونے کی صورت میں  بھوک کے  باوُجود ایثار کی نیت سے آہستہ آہستہ کھاؤں گا تاکہ دوسرے اسلامی بھائی زِیادہ کھا سکیں ۔ ایثار کا ثواب بے شمارہے چنانچِہ تاجدارِ رِسالت،  ماہِ نُبُوَّت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ بخشش نشان ہے:  ’’ جو شخص کسی چیز کی خواہش رکھتا ہو،  پھر اُ س خواہش کو روک کر اپنے اوپرکسی اور کو ترجیح دے،  تواللہ عَزَّوَجَلَّاُسے بخش دیتا ہے ‘‘   (ابنِ عَساکِر ج۳۱ص۱۴۲)  {۳۰} پیٹ کا قُفلِ مدینہ لگاؤں گا یعنی  خواہِش سے کم کھاؤں گا تا کہ عبادت میں  سستی واقع نہ ہو اور زیادہ کھانے کی وجہ سے صحّت میں  کوئی ایسی خرابی نہ ہو جا ئے جو عبادات کو مُتَأَثِّر کرے  {۳۱} اگر کسی نے زیادَتی کی تو اللہ تَعَالٰی کی رضا کے  لئے صَبْر کروں گااور  {۳۲}  اُس کواللہ عَزَّوَجَلَّکی رِضا کیلئے معاف کروں گا  {۳۳} خصوصاًپڑ و سی مُعتَکِف کے  ساتھ اورعموماً ہر ایک کے  ساتھ حسنِ سلوک کروں گا  {۳۴} اعتکاف کے  حلقہ نگران کی انتِظامی معاملات اورجَدوَل کے  تعلُّق سے اطاعت کروں گا تا کہ مسجد کے  اجتماعی نظم و نسق میں  کوئی خلل نہ پڑے اور بد انتِظامی پیدا نہ ہو  {۳۵}  فکر مدینہ کرتے ہوئے روزانہ مَدَنی اِنعاما ت کا رسالہ پر کروں گا  {۳۶} اسلامی بھائیوں کے  سامنے موقع کی مناسبت سے مسکرا مسکرا کر صدقے کا ثواب کماؤں گا  {۳۷} کوئی میری طرف دیکھ کر مسکرائے گا تو یہ دعا پڑھوں گا:  اَضْحَکَ اللہ سِنَّکَ (یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّتجھے ہنستا رکھے)   {۳۸} اپنے لئے،  گھر والوں ،  اَحباب اور ساری اُمت کیلئے دعائیں کروں گا  {۳۹} اگر کوئی معتکف بیمار ہو گیا تو جتنا ہو سکا اُس کی دلجوئی اور خدمت کروں گا  {۴۰} بزرگ (یعنی عمر رسیدہ)  معتکفین کے  ساتھ بہت زیادہ حسنِ سلوک کروں گا {۴۱} دَورانِ اعتکاف حسبِ توفیق رسائل تقسیم کروں گا( ہرمعتکف اسلامی بھائی کی خدمت میں  درد بھری مَدَنی التجا  ہے کہ حسبِ توفیق یا دورانِ اعتکاف کم از کم 112 روپے کے  مکتبۃُ المدینہ کے  رسائل یا سنتوں بھرے بیان کی C.D. یا مَدَنی پھولوں کے  مَدَنی پمفلٹ آنے والے ملاقاتیوں وغیرہ میں  ضَرور تقسیم فرمائیں ۔  رمَضانُ الْمُبارَک میں  تقسیمِ رسائل کا ثواب بھی زِیادہ ملے گا)

اعتکاف کس مسجد میں  کرے؟:

مسجد جا مِع ہونا اعتکاف کے  لیے شرط نہیں بلکہ مسجد جماعت میں  بھی ہوسکتا ہے۔ مسجد جماعت وہ ہے جس میں  امام و مُؤَذِّن مقرر ہوں ،  اگرچِہ اس میں  پنجگانہ جماعت نہ ہوتی ہو اور آسانی اس میں  ہے کہ مُطْلقاً ہر مسجد میں  اعتکاف صحیح ہے

 اگرچہ وہ مسجد جماعت نہ ہو،  خصوصاً اس زمانہ میں  کہ بہتیری مسجدیں ایسی ہیں جن میں  نہ امام ہیں نہ مُؤَذِّن۔ (رَدُّالْمُحتَارج۳ص۴۹۳)  سب سے افضل مسجد حرم شریف میں  اعتکاف ہے پھرمسجِدُالنَّبَوِی عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں  پھر مسجِد اقصیٰ (یعنی بیتُ الْمَقْدِس)  میں  پھر اُس میں  جہاں بڑی جماعت ہوتی ہو۔ ( جَوْہَرہ ص۱۸۸، بہارِشریعتج۱ص۱۰۲۰۔۱۰۲۱)

معتکف اور احترامِ مسجد:

پیارے معتکف اسلامی بھائیو! آپ کو دس روز مسجِدہی میں  گزار نے ہیں اِس لئے چند باتیں اِحترامِ مسجِد سے مُتَعَلِّق سیکھ لیجئے۔ دَورانِ اعتکاف مسجِد کے  اندر ضَرورۃًدُنیوی بات کرنے کی اجا زت ہے لیکن اس طرح کہ کسی نمازی یا عبادت کرنے والے یا سونے والے کو تشویش نہ ہو۔ یادرکھئے! مسجِد میں  بلاضرو ر ت دُنیوی بات چیت کی معتکف کو بھی اجا ز ت نہیں ۔  

اللہ ان پر کرم نہ کرے گا:

حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْقَوِی  سے روایت ہے کہ نبی رَحمت ، شفیعِ اُمت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کافرمانِ ذی شان ہے:   لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گاکہ مساجد میں  دنیا کی باتیں ہوں گی،  تم ان کے  ساتھ مت بیٹھوکہاللہ عَزَّوَجَلَّکوایسے لوگوں کی کوئی حاجت نہیں ۔(شُعَبُ الایمان ج۳ ص ۸۶ حدیث ۲۹۶۲)

 

Index