کان بہرے ہیں گر، رکھو ربّ پر نظر ہوگا لطف خدا، قافلے میں چلو
دُنیوی آفتیں ، اُخروی شامتیں دور ہوں گی ذرا، قافِلے میں چلو
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اللہ تبارَک وَ تعالیٰ پارہ 30 سُوْرَۃُ الْاَعْلٰیکی آیت نمبر 14تا15 میں ارشاد فرماتا ہے :
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰىۙ(۱۴) وَ ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰىؕ(۱۵)
ترجَمۂ کنزالایمان: بے شک مراد کو پہنچا جو ستھرا ہوا اور اپنے رب کا نام لے کرنماز پڑھی۔
صدرُالْاَ فاضِل حضرت علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی ’’ خَزائِنُ العِرفان ‘‘ میں اس آیتِ کریمہ کے تحت لکھتے ہیں : اس آیت کی تفسیر میں یہ کہا گیا ہے کہ ’’ تَزَكّٰى‘‘ سے صدقۂِ فطر دینا اور رب کا نام لینے سے عید گاہ کے راستے میں تکبیریں کہنااور نماز سے نمازِ عید مراد ہے۔ (خزائن العرفان ص۱۰۹۹)
سرکار مدینہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم نے ایک شخص کو حکم دیا کہ جا کر مکّۂ مُعَظّمہ کے گلی کوچوں میں اِعلان کر دو، ’’ صَدَ قَۂِ فِطْر واجب ہے۔ ‘‘
( تِرمذی ج۲ص۱۵۱حدیث۶۷۴)
صدقۂ فطر لغو باتوں کا کفارہ ہے:
حضرت سَیِّدُنا اِبنِ عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما فرماتے ہیں : مَدَنی سرکار، غریبوں کے غَمخوارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّمنے صَدَقَۂِِ فِطْرمقرر فرمایا تاکہ فضول اور بے ہودہ کلام سے روزوں کی طَہارت (یعنی صفائی) ہوجا ئے۔ نیز مساکین کی خورِش (یعنی خوراک) بھی ہوجا ئے۔ (ابوداوٗد ج۲ص۱۵۸حدیث۱۶۰۹)
حضرت سَیِّدُنا اَنس بن مالِکرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : جب تک صَدَقَۂِ فِطْر ادا نہیں کیا جا تا، بندے کا روزہ زَمین و آسمان کے درمیان مُعلَّق (یعنی لٹکا ہوا ) رہتاہے۔ (اَلْفِردَوس بمأثور الْخِطاب ج۲ص۳۹۵حدیث۳۷۵۴)
’’ عید ‘‘ کی خوشیاں مبارک ‘‘ کے سولہ حروف
کی نسبت سے فطرے کے 16مَدَنی پھول
{۱} صَدَقَۂِ فِطْر ان تمام مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے جو ’’ صاحب نصاب ‘‘ ہوں اور اُن کا نصاب ’’ حاجا تِ اَصلیہ (یعنی ضروریاتِ زندگی مَثَلاً رہنے کا مکان ، خانہ داری کا سامان وغیرہ) ‘‘ سے فارِغ ہو۔ (ماخوذ از عالمگیری ج۱ص۱۹۱)
{۲} جس کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باوَن تولہ چاندی یا ساڑھے بَاوَن تولہ چاندی کی رقم یا اتنی مالیت کامالِ تجا رت ہو (اور یہ سب حاجا تِ اَصْلِیَّہ سے فارِغ ہوں ) یا اتنی مالیَّت کا حاجتِ اَصلِیَّہ کے علاوہ سامان ہو اُس کو صاحِبِ نِصاب کہا جا تا ہے ([1]) ۔
{۳} صَدَقَۂِ فِطْر واجب ہونے کیلئے ، ’’ عاقل وبالغ ‘‘ ہونا شرط نہیں ۔بلکہ بچہ یا مَجْنُون (یعنی پاگل ) بھی اگر صاحبِ نصاب ہوتو اُس کے مال میں سے اُن کا وَلی (یعنی سرپرست) ادا کرے۔ (ردّالْمُحتار ۳ص۳۶۵) ’’ صَدَقَۂِ فِطْر ‘‘ کے لئے مقدارِ نصاب تو وُہی ہے جو زکوٰۃ کا ہے جیسا کہ مذکور ہوا لیکن فرق یہ ہے کہ صَدَقَۂِ فِطْر کے لئے مال کے نامی (یعنی اس میں بڑھنے کی صلاحیت) ہونے اور سال گزرنے کی شرط نہیں ۔ اسی طرح جو چیزیں ضرورت سے زیادہ ہیں (مَثَلاًعمومی ضرورت سے زیادہ کپڑے ، بے سلے جوڑے ، گھریلو زینت کی اشیا وغیرہا) اور ان کی قیمت نصاب کو پہنچتی ہو تو ان اشیا کی وجہ سے صَدَقَۂِ فِطْر واجب ہے۔ (وقار الفتاویٰ ج۲ ص ۳۸۶ملَخَّصاً)
{۴} مالک نصاب مردپر اپنی طرف سے ، اپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے اور اگر کوئی مَجْنُون (یعنی پاگل ) اولاد ہے (چاہے وہ پاگل اولاد بالغ ہی کیوں نہ ہو) تو اُس کی طرف سے بھی صَدَقَۂِ فِطْر واجب ہے، ہاں اگر وہ بچہ یا مَجْنُون خود صاحِب نصاب ہے تو پھراُ س کے مال میں سے فطرہ ادا کردے۔ (عالمگیری ج۱ص۱۹۲ مُلَخَّصاً)
{۵} مرد صاحب نصاب پر اپنی بیوی یا ماں باپ یا چھوٹے بھائی بہن اور دیگر رِشتے داروں کا فطرہ واجب نہیں ۔ (ایضاً ص۱۹۳ملَخَّصاً)
{۶} والد نہ ہو تو دادا جا ن والد صاحِب کی جگہ ہیں ۔یعنی اپنے فقیر ویتیم پوتے پوتیوں کی طرف سے اُن پہصَدَقَۂِ فِطْر دینا واجِب ہے۔ (دُرَّمُختار ج۳ص۳۶۸)
[1] صاحب نصاب، غنی" "فقیرحاجات اصلیہ وغیرہ اصلاحات کی تفصیلی معلومات فقہ حنفی کی مشہور کتاب بہارشریعت حصہ پنجم میں ملاحظہ فرمایئے۔