فیضان رمضان

حضرتِ سیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :  ’’ جو کوئی ستّائیسویں رجب کا ر وزہ رکھے ،  اللہ تَعَالٰی اُس کیلئے ساٹھ مہینوں کے  روزوں کا ثواب لکھے۔ ‘‘ (فَضائِلُ شَہْرِ رَجَب ص۱۰)

...... تو گویاسوسال کے  روزے رکھے:

حضرت ِسیِّدُناسلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے :  اللہ عَزَّوَجَلَّکے  محبوب ،  دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ ذِیشان ہے:  ’’ رَجَب میں  ایک دن اور رات ہے جو اُس دن روزہ رکھے اور رات کو قِیام (عبادت ) کرے تو گویا اُس نے سو سال کے  روزے رکھے اور یہ رَجَب کی ستائیس تاریخ ہے۔ (شُعَبُ الایمان ج۳ ص۳۷۴ حدیث۳۸۱۱)

دعوتِ اسلامی اور جشن معراج النبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! رَجَبُ الْمُرجَّب کو ایک خصوصیَّت یہ بھی حاصل ہے کہ اِس کی ستائیسویں شب کو ہمارے میٹھے میٹھے مکی مَدَنی آقاصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو ربُّ الْعُلٰی کی طرف سے معراج کامعجزہ عطا ہوا،  آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ستائیسویں رات مسجِد الحرام سے مسجِد اقصیٰ ( بیت المقدس)   اور پھر وہاں سے آسمانوں کی سیر فرمائی ۔ جنت و دوزخ کے  عجا ئبات ملا حظہ فرمائے۔ عرش کو اپنی قد م بوسی کاشرف بخشا اور عین بیداری کے  عالم میں  کھلی آنکھوں سے اپنے پروردگارعَزَّوَجَلَّکا دیدار کیا۔ یہ سارا سفر آن کی آن میں  طے فرما کر واپس تشریف لے آئے۔ رَجَبُ الْمُرجَّب کی ستائیسویں شب بے حد عظمت والی ہے ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ تبلیغِ قراٰن و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک،   دعوتِ اسلامی کی طرف سے ہر سال ستائیسویں شب کو جشنِ معراجُ النبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے  سلسلے میں  دنیا میں  بے شمار مقامات پر اجتماعِ ذکرونعت کا اِنعقاد کیا جا تاہے ۔میرے حسنِ ظن کے  مطابق جشنِ معراج کا دنیا کا سب سے بڑا اجتماع سالہا سال سے اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ باب المدینہ کراچی میں  ہوتا ہے جو کہ تقریباًساری رات جا ری رہتااور براہِ راست مدنی چینل پر ٹیلے کاسٹ کیا جا تا ہے۔

خدا کی قدرت کہ چاند حق کے  کروروں منزِل میں  جلوہ کر کے

ابھی نہ تاروں کی چھاؤں بدلی کہ نور کے  تڑکے  آ لئے تھے      (حدائقِ بخشش ص۲۳۷)

کفن کی واپسی:

بصرہ کی ایک نیک خاتون نے بو قت وفات اپنے بیٹے کو وصیت کی کہ مجھے اُس کپڑے کا کفن دینا جسے پہن کر میں  رَجَبُ الْمُرجَّب میں  عبادت کیا کرتی تھی۔ بعد از وفات بیٹے نے کسی اور کپڑے میں  کفنا کر دفنا دیا۔ جب وہ قبرستان سے گھر آیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیاکہ جو کفن اُس نے پہنایا تھا وہ گھرمیں  موجود ہے! جب اُس نے ماں کی وصیت والے کپڑے تلاش کئے تو وہ اپنی جگہ سے غائب تھے۔اِتنے میں  ایک غیبی آواز گونج اٹھی:   ’’ اپنا کفن واپَس لے لو ہم نے اُس کو اُسی کپڑے میں  کفنایا ہے (جس کی اُس نے وصیت کی تھی)  جو رَجب کے  روزے رکھتاہے ہم اُس کو قبر میں  رنجیدہ نہیں رہنے دیتے۔ ‘‘ (نُزہَۃُ المجا لِس ج۱ ص۲۰۸ ) اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے  صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجا ہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

لاڈ پیار نے ڈھیٹ بنا دیا تھا:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! رجبُ المرجَّب کے  روزوں کی مَدَنی سوچ بنانے ،  گناہوں کی عادت چھڑانے اور عبادت کی لذت پانے کیلئے تبلیغِ قراٰن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک،   دعوتِ اسلامی کے  مَدَنی قافلے میں  عاشقانِ رسولکے  ہمراہ سنتوں بھرے سفر کا معمول بنا لیجئے۔ ترغیب کیلئے مَدَنی قافلے کی ایک مَدَنی بہار آپ کے  گوش گزار کی جا تی ہے،  شاہدرہ (مرکز الاولیا، لاہور)  کے  ایک اسلامی بھائی اپنے والدین کے  اِکلوتے بیٹے تھے،  زیادہ لاڈ پیار نے ان کو حد دَرَجے ڈھیٹ اورماں باپ کا سخت نافرمان بنا دیا تھا ،  رات گئے تک آوارہ گردی کرتے اور صبح دیر تک سوئے رہتے ۔ ماں باپ سمجھاتے تو اُن کو جھاڑ دیتے،  جس پروہ بے چارے بعض اوقات رو پڑتے۔ خوش قسمتی سے انہیں دعوتِ اسلامی والے ایک عاشقِ رسول سے ملاقات کی سعادت ملی انہوں نے مَحبَّت اور پیار سے اِنفرادی کوشِش کرتے ہوئے مَدَنی قافلے میں  سفر کیلئے تیار کیا۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہوہ اسلامی بھائی عاشِقانِ رسول کے  ہمراہ تین۳ دن کے  مَدَنی قافلے کے  مسافر بن گئے۔ نہ جا نے ان عاشقانِ رسول نے تین۳  دن کے  اندر کیا گھول کر پلا دیا کہ ان کا پتھر نما دل بھی موم بن گیا ،  مَدَنی قافلے سے نَمازی بن کر لوٹے۔ گھر آ کر انہوں نے سلام کیا ،  والد صاحِب کی دَست بوسی کی اور امی جا ن کے  قدم چومے ۔ گھر والے حیران تھے! اس کو کیا ہو گیا ہے کہ کل تک جو کسی کی بات سننے کیلئے تیار نہیں تھا وہ آج اتنا باادب بن گیا ہے! اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ مَدَنی قافِلے میں  عاشقانِ رسول کی صحبت نے انہیں یکسر بدل کر رکھ دیااور انہیں مسلمانوں کو نَمازِ فجرکیلئے جگانے یعنی صدائے مدینہلگانے کی تنظیمی طور پر ذِمّے داری کی سعادت ملی۔ (دعوتِ اسلامی کے  مَدَنی ماحول

Index