فیضان رمضان

اُس کے  گرد جمع ہوکر پوچھتے ہیں :  اے آقا!آپ کیوں غضب ناک اور اُداس ہیں ؟ وہ کہتا ہے:  ہائے افسوس ! اللہ عَزَّوَجَلَّنے آج کے  دِن اُمّتِ مُحمّد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بخش دیا ہے،  لہٰذا تم اِنہیں لذات اورنفسانی خواہشات میں  مشغول کردو۔   (مُکاشَفَۃُ الْقُلُوب ص۳۰۸)

کیا شیطان کامیاب ہے؟:

میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے! شیطان پر عید کا دِن نہایت گراں گزرتا ہے لہٰذا وہ شیاطین کو حکم صادِر کردیتا ہے کہ تم مسلمانوں کو لذاتِ نفسانی میں  مشغول کردو!ایسا لگتا ہے، فی زمانہ شیطان اپنے اِس وار میں  کامیاب نظر آرہا ہے۔ عید کی آمد پر ہونا تو یہ چاہئے کہ عبادات وحسنات کی کثرت وبہتات کرکے  ربِّ کائناتعَزَّوَجَلَّکا زیادہ سے زیادہ شکر ادا کیا جا ئے، مگر افسوس ! صدکروڑ افسوس!اب اکثر مسلمان عید سعیدکا حقیقی مقصد ہی بھلا بیٹھے ہیں ! وَا حسرتا! اب تو عید منانے کا یہ انداز ہوگیا ہے کہ بے ہودہ نقش و نگار بلکہ مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّجا ندار کی تصویر والے بھڑ کیلے کپڑے پہنے جا تے ہیں (بہار شریعت میں  ہے کہ جس کپڑے پر جا ندار کی تصویر ہو اُسے پہن کر نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے، نماز کے  علاوہ بھی ایسا کپڑا پہننا ناجا ئز ہے۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۶۲۷) )  رَقص و سُرُود (سُ۔رُوْ۔د)  کی محفلیں گرم کی جا تی ہیں ، گناہوں بھرے مَیلوں ،  گندے کھیلوں ،  ناچ گانوں اور فِلموں ڈِراموں کا اِہتمام کیا جا تا ہے اور جِی کھول کر وَقْت و دولت دونوں کو خِلافِ سُنَّت و شریعت اَفعال میں  برباد کیاجا تا ہے۔ افسوس !صَد ہزار افسوس! اب اِس مُبارَک دن کو کس قدر غلط کاموں میں  گزاراجا نے لگا ہے ۔ میرے اسلامی بھائیو!اِن خلافِ شرع باتوں کے  سبب ہوسکتا ہے کہ یہ عید سعید ناشکروں کے  لئے  ’’ یومِ وَعید ‘‘  بن جا ئے۔ لِلّٰہ! اپنے حال پر رحم کیجئے ! فیشن پرستی اور فُضُول خرچی سے باز آجا ئیے ! اللہ عَزَّوَجَلَّنے فضول خرچوں کو قراٰنِ پاک میں  شیطانوں کا بھائی قراردیا ہے۔چنانچہ پارہ سُوْرَۃُ بَنِیْ اِسْرَآءِیْل کی آیت نمبر26 اور27 میں  ارشاد ہوتا ہے:

وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶) اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ-وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا(۲۷)

ترجَمۂ کنزالایمان: اور فُضُول نہ اُڑابے شک اُڑانے والے شیطانوں کے  بھائی ہیں اور شیطان اپنے ربّ کا بڑاناشکرا ہے۔

           مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ ’’  تفسیرِ صِراطُ الْجِنان ‘‘   جلد5صفحہ447تا448  پراِن آیاتِ مبارک کے  تحت ہے :   { وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶) اور فضول خرچی نہ کرو۔}  یعنی اپنا مال ناجا ئز کام میں  خرچ نہ کرو ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے ’’ تبذ یر  ‘‘ کے  متعلق سوال کیا گیا تو آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ جہاں مال خرچ کرنے کاحق ہے ا س کی بجا ئے کہیں اور خرچ کرنا تبذیر ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص اپنا پورا مال حق یعنی اس کے  مصرف میں  خرچ کر دے تو وہ فضول خرچی کرنے والا نہیں اور اگر کوئی ایک دِرہم بھی باطل یعنی ناجا ئز کام میں  خرچ کردے تو وہ فضول خرچی کرنے والا ہے۔  (خازن  ج ۳ص۱۷۲)

 اِسرا ف کی گیارہ تعریفات:

اِسراف بلاشبہ ممنوع اور ناجا ئز ہے اور علماءِ کرام نے اس کی مختلف تعریفات بیان کی ہیں ، ان میں  سے11تعریفات درج ذیل ہیں :   {۱} غیرحق میں  صرف کرنا {۲}  اللہ تَعَالٰی کے  حکم کی حد سے بڑھنا  {۳} ایسی بات میں  خرچ کرنا جو شرعِ مطہر یا مروت کے  خلاف ہو ، اوَّل(یعنی خلافِ شریعت خرچ کرنا)  حرام ہے اور ثانی(یعنی خلافِ مروت خرچ کرنا)  مکروہِ تنزیہی ۔  {۴} طاعت الٰہی کے  غیر میں  صرف کرنا  {۵} شرعی حاجت سے زیادہ استعمال کرنا  {۶} غیر طاعت میں  یا بلا حاجت خرچ کرنا  {۷}  دینے میں  حق کی حد سے کمی یا زیادتی کرنا  {۸} ذلیل غرض میں  کثیر مال خرچ کردینا  {۹}  حرام میں  سے کچھ یا حلال کو اعتدال سے زیادہ کھانا  {۱۰} لائق وپسندیدہ بات میں  لائق مقدار سے زیادہ صرف کردینا  {۱۱} بے فائدہ خرچ کر نا ۔

اِسراف کی واضح تر تعریف: غیر حق میں  مال خرچ کرنا:

اعلٰی حضرت امام احمد رضا خانرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ان تعریفات کو ذِکر کرنے اور ان کی تحقیق و تفصیل بیان کرنے کے  بعد فرماتے ہیں :  ہمارے کلام کا ناظر (یعنی نظر کرنے والا) خیال کرسکتا ہے کہ ان تمام تعریفات میں  سب سے جا مع ومانع وواضح تر تعریف اول ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہ اُس عبد اللہ کی تعریف ہے جسے رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَعلم کی گٹھڑی فرماتے اور جو خلفائے اَربعہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے  بعد تمام جہان سے علم میں  زائد ہے اور ابو حنیفہ جیسے امام الائمہ کا مورثِ عِلْم ہے رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ وَعَنْہُ وَعَنْہُمْ اَجْمَعِیْن۔          (فتاوٰی رضویہ ج ۱(ب) ص۹۳۷)

تبذیر اوراِ سراف میں  فرق:

اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ’’ تبذیر ‘‘ اور  ’’ اِسراف ‘‘  میں  فرق سے متعلق جو کلام ذِکر فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ تبذیر کے  بارے میں  علما ئِ کرام کے  دو قول ہیں :  (1) …تبذیر اور اِسراف دونوں کے  معنیٰ  ’’ ناحق صَرف کرنا  ‘‘  ہیں ۔ یہی صحیح ہے کہ یہی قول حضرت عبد اللہ بن مسعود اور حضرت عبد اللہ بن عباس اور عام صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا ہے۔ (2) …تبذیر اور اِسراف میں  فرق ہے،  تبذیر خاص گناہوں میں  مال برباد کرنے

Index