{۳} ’’ جس نے روزے کی حالت میں یومِ جُمُعہکی صبح کی اور مریض کی عیادت کی اور جنازے کے ساتھ گیا اور صَدَقہ کیا تو اُس نے اپنے لئے جنت واجب کرلی۔ ‘‘
(شُعَبُ الْایمان ج۳ص۳۹۳حدیث۳۸۶۴)
{۴} جس نے بروزِجُمُعہ روزہ رکھا اور مریض کی عیادت کی اور مِسکین کو کھانا کھلایا اور جنازے کے ہمراہ چلا تو اُسے چالیس سال کے گناہ لاحق نہ ہوں گے۔ (ایضاًص۳۹۴حدیث۳۸۶۵) حدیثِ پاک کے اس حصّے ’’ اُسے چالیس سال کے گناہ لاحق نہ ہوں گے ‘‘ سے مراد یا تو اُسے نیکی ہی کی توفیق ملے گی یا گناہ صادر ہوئے تو ایسی توبہ کی توفیق مل جا ئے گی جو اس کے گناہوں کو مٹا دے گی۔
حضرت سَیِّدُنا عبد اللّٰہبن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بَہُت کم جُمُعہ کا روزہ ترک فرماتے تھے۔
(اَیضاً)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!جس طرح عاشوراکے روزے کے پہلے یا بعد میں ایک روزہ رکھنا ہے اِسی طرح جُمُعہ میں بھی کرنا ہے ، کیوں کہ خصو صیت کے ساتھ تنہا جُمُعہ (اس مسئلے کا خلاصہ آگے آرہا ہے) یا صِرفہفتے کا روزہ رکھنا مکروہِ تَنزِیہی (یعنی ناپسندید ہ ) ہے۔ہاں اگر کسی مخصوص تاریخ کو جُمُعہ یا ہفتہ آگیا توتنہا جُمُعہ یا ہفتے کا روزہ رکھنے میں کراہت نہیں ۔مَثَلاً 15شَعبا نُ الْمُعظَّم، 27 رَجَبُ الْمُرجَّب وغیرہ۔
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
’’ فَضل ‘‘ کے تین حُرُوف کی نسبت سے تنہا جمعہ کا روزہ رکھنے
کی ممانعت پر 3 فرامین مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
{۱} شبِ جُمُعہ کو دیگر راتوں میں شب بیداری کیلئے خاص نہ کرو اور نہ ہی یومِ جُمُعہ کو دیگر دنوں میں روزے کے ساتھ خاص کرو مگر یہ کہ تم ایسے روزے میں ہو جو تمہیں رکھنا ہو۔
(مُسلِم ص۵۷۶حدیث۱۱۴۴)
مُفَسِّرِ شہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان مراٰۃ جلد 3 صفحہ 187 پر ’’ شبِ جمعہ کو دیگر راتوں میں شب بیداری کیلئے خاص نہ کرو۔‘‘ کے تحت فرماتے ہیں : یعنی جمعہ کی رات میں عبادت کرنا منع نہیں ، بلکہ اور راتوں میں بالکل عبادت نہ کرنا مناسب نہیں کہ یہ غفلت کی دلیل ہے چونکہ جمعہ کی رات ہی زیادہ عظمت والی ہے ، اندیشہ تھا کہ لوگ اس کو نفلی عبادتوں سے خاص کرلیں گے اس لیے اسی رات کا نام لیا گیا۔
{۲} تم میں سے کوئی ہرگز جُمُعہ کاروزہ نہ رکھے مگر یہ کہ اس کے پہلے یا بعد میں ایک دن ملا لے۔ (بُخارِی ج۱ص۶۵۳حدیث۱۹۸۵)
{۳} جُمُعہ کا دِن تمہارے لئے عید ہے اِس دن روزہ مت رکھو مگر یہ کہ اس سے پہلے یا بعد میں بھی روزہ رکھو۔ (التَّرغِیب وَالتَّرہِیب ج۲ص۸۱حدیث۱۱)
احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ تنہا جُمُعہ کا روزہ نہ رکھنا چاہئے مگر یہ ممانعت صرف اُسی صورت میں ہے جبکہ خصوصیت کے ساتھ جمعہ ہی کا روزہ رکھا جا ئے اگر خصوصیَّت نہ ہو مَثَلاً جمعہ کے روز چھٹی تھی اِس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روزہ رکھ لیا تو کراہت نہیں ۔
مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان مراٰۃ جلد 3 صفحہ 187 پر فرماتے ہیں : مَثَلاً کوئی شخص ہر گیارہویں یا بارہویں تاریخ کو روزہ رکھنے کا عادی ہو اور اتفاق سے اس دن جمعہ آجا ئے تو رکھ لے، اب خلافِ اولیٰ بھی نہیں ۔
روزۂ جمعہ کے متعلق ایک فتویٰ:
اِس ضمن میں فتاوٰی رضویہ (مُخَرَّجَہ) جلد 10 صَفحَہ 559 سے معلوماتی سُوال جواب ملاحظہ ہوں : سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اِس مسئلے میں کہ جمعہ کا روزۂ نفل رکھنا کیسا ہے؟ ایک شخص نے جمعہ کا روزہ رکھا دوسرے نے اُس سے کہا جمعہ عیدُ الْمؤمنین ہے ، روزہ رکھنا اس دن میں مکروہ ہے اور باصرار بعد دوپہر کے روزہ تڑوادیا اور کتاب ’’ سِرُّالْقُلُوب ‘‘ میں مکروہ ہونا لکھا ہے دکھلادیا۔ ایسی صورت میں روزہ توڑنے والے کے ذمے کفارہ ہے یا نہیں ؟ اورتڑوانے والے کوکوئی الزام ہے یانہیں ؟۔ الجواب: جمعہ کا روزہ خاص اس نیت سے (رکھنا) کہ آج جمعہ ہے اس کا روزہ بِالتَّخصیص(یعنی خصوصیت سے رکھنا) چاہئے ، مکروہ ہے، مگر نہ وہ کراہت کہ توڑنا لازم ہوا، اور اگر خاص بہ نیت تخصیص نہ تھی تو اصلاً کراہت بھی نہیں ، اُس دوسرے شخص کو اگر نیتِ مکروہہ پر اطلاع نہ تھی جب تواعتراض ہی سرے سے حماقت ہوا اور روزہ توڑوا دینا شرع پر سخت جرأت ، اور اگر اطلاع بھی ہوئی جب بھی مسئلہ بتا دینا کافی تھا نہ کہ روزہ تڑوانا اور وُہ بھی بعد دوپہر کے ، جس کا اختیار نفل روزے میں والدین کے سوا کسی کو نہیں ، توڑنے والا اور تڑوانے والا دونوں گنہ گار ہوئے، توڑنے والے پر قضا لازم ہے کفارہ اصلاً (یعنی بالکل ) نہیں ۔ وَاللہ تعالٰی اَعلَم۔
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد