زچہ کی خیر ہو، بچہ بالخیر ہو اُٹھئے ہمّت کریں ، قافِلے میں چلو
بیوی بچے سبھی، خوب پائیں خوشی خیریت سے رہیں ، قافِلے میں چلو
(وسائل بخشش ص۶۷۴، ۶۷۵)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرت سَیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے رِوایت ہے کہ سلطانِ دوجہان، شہنشاہِ کون ومکان، رحمت عالمیان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : ’’ آدَمی کے ہر نیک کام کا بدلہ دس سے سات سو گنا تک دیا جا تا ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا: اِلَّا الصَّوْمَ فَاِنَّہٗ لِیْ وَاَنَا اَجْزِیْ بِہٖ۔ یعنی سوائے روزے کے کہ روزہ میرے لئے ہے اور اِس کی جَزا میں خود دوں گا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا مزید ارشاد ہے: بندہ اپنی خواہش اور کھانے کو صرف میری وَجہ سے تَرک کرتا ہے۔ روزہ دار کیلئے دو خوشیاں ہیں ، ایک اِفطار کے وَقت اور ایک اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ سے ملاقات کے وَقت، روزہ دار کے منہ کی بو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک مشک سے زیادہ پاکیزہ ہے۔ ‘‘ (مسلِم ص۵۸۰حدیث۱۱۵۱)
مزید ارشاد ہے: روزہ سپر (یعنی ڈھال) ہے اور جب کسی کے روزہ کا دِن ہو تو نہ بے ہودہ بکے اور نہ ہی چیخے، پھر اگر کوئی اورشخص اِس سے گالم گلوچ کرے یا لڑنے پر آمادہ ہو تو کہہ دے : ’’ میں روزہ دا رہوں ۔ ‘‘ ( بُخاری ج۱ص۶۲۴حدیث۱۸۹۴)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! بیان کردہ اَحادیث مبارکہ میں روزے کی کئی خصوصیات ارشاد فرمائی گئی ہیں ۔ کتنی پیاری بشارت ہے اُس روزہ دار کے لئے جس نے اِس طرح روزہ رکھا جس طرح روزہ رکھنے کا حق ہے۔یعنی کھانے پینے اور جماع سے بچنے کے ساتھ ساتھ اپنے تمام اَعضاء کو بھی گناہوں سے باز رکھا تو وہ روزہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل وکرم سے اُس کیلئے تمام پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو گیا۔اور حدیث مبارک کا یہ فرمانِ عالیشان تو خاص طور پر قابل توجہ ہے جیسا کہ سرکارِنامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے پروردگار عَزَّوَجَلَّ کا فرمانِ خوشگوار سناتے ہیں : ’’ فَاِنَّہٗ لِیْ وَاَنَا اَجْزِیْبِہٖ۔ ‘‘ یعنی روزہ میرے لئے ہے اور اِس کی جزا میں خود ہی دُوں گا ۔ حدیث قدسی کے اِس ارشادِ پاک کو بعض علمائے کرامرَحِمَہُمُ اللہُ السَّلامْنے ، ’’ اَنَا اُجْزٰی بِہٖ ‘‘ بھی پڑھا ہے جیسا کہ مِراٰۃُ المناجیح وغیرہ میں ہے تو پھر معنٰی یہ ہوں گے: ’’ روزے کی جَزا میں خود ہی ہوں ۔ ‘‘ سُبحٰن اللہ عَزَّوَجَلَّ ! یعنی روزہ رکھ کر روزہ دار بذاتِ خود اللہ تَبارَکَ وَ تَعَالٰی ہی کو پالیتا ہے۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! قراٰنِ کریم میں مختلف مقامات پر بیان ہوا ہے کہ جو اچھے اَعمال کرے گا اُسے جنت ملے گی۔ چنانچہ اللہ تَبارَکَ وَ تَعَالٰی پارہ 30 سُوْرَۃُ الْبَیِّنَہ کی آیت نمبر 7 اور8 میں ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِؕ(۷) جَزَآؤُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُؕ-ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّهٗ۠(۸)
ترجَمۂ کنزالایمان: بے شک جو ایما ن لائے اور اچھے کام کئے وہی تمام مخلوق میں بہتر ہیں ۔اُن کا صِلہ اُن کے ربّ کے پاس بسنے کے باغ ہیں ، جن کے نیچے نہریں بہیں ، اُن میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں ۔ اللہ اُن سے راضی اور وہ اُس سے راضی۔ یہ اُس کے لئے ہے جو اپنے رب سے ڈرے۔
غیر صحابی کے لیے ’’ رضی اللہ تعالٰی عنہ ‘‘ کہنا کیسا؟:
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! یہ بات بالکل غلط ہے کہ ’’ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ‘‘ کہنا لکھنا صرف صحابی کے نام کیساتھ مخصوص ہے۔پیش کردہ آیات کے اِس آخری حصے رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُؕ-ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّهٗ۠(۸) (ترجَمۂ کنزالایمان: اللہ (عَزَّوَجَلَّ) اُن سے راضی اور وہ اُس سے راضی، یہ اُس کیلئے ہے جو اپنے ربّ (عَزَّوَجَلَّ) سے ڈرے) نے اِس عوامی غلط فہمی کو جڑ سے اُکھاڑ دیا! خوفِ خدا عَزَّوَجَلَّ رکھنے والے ہر مومن خواہ وہ صحابی ہو یا غیر صحابی سب کیلئے یہ بشارتِ عظمی ارشاد فرمائی گئی ہے کہ جو بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرنے والا ہے وہ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُؕکے زُمرے میں داخل ہے، بے شک ہر صحابی اور وَلی کے لئے رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ لکھنا اور بولنا بالکل دُرُست و جا ئز ہے۔ جس نے ایمان کے ساتھ سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی حیاتِ ظاہری میں سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ایک لمحہ بھر بھی صحبت پائی یا دیکھا اوراس کا ایمان پر خاتمہ ہوا وہ صحابی ہے ۔ بڑے سے بڑا ولی، صحابی کے مرتبے کو نہیں پاسکتا، ہر صحابی عادِل اور جنتی ہے۔