ہم جا نتے اور نہیں بھی جا نتے جبکہ تو انہیں سب سے زیادہ جا ننے والا ہے ۔بے شک تو سب سے بڑھ کر عزیز اور عزت والا ہے۔ اللہ تَعَالٰی ہمارے سردار محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آل واصحا ب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمپر دُرُودو سلام بھیجے ۔ سب خوبیاں سب جہانوں کے پالنے والےاللہ عَزَّوَجَلَّکے لئے ہیں ۔
سگ مدینہ عُفِیَ عَنہُ کی مَدَنی التجا ئیں :
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ!سگِ مدینہعُفِیَ عَنْہُ کا سا لہا سال سے شبِ براءَ ت میں بیان کردہ طریقے کے مطابق چھ نوافل وغیرہ کا معمول ہے۔ مغرب کے بعد کی جا نے والی یہ عبادت نفل ہے، فرض و واجب نہیں اورنمازِمغر ب کے بعد نوافل وتلاوت کی شریعت میں کہیں مما نعت بھی نہیں ۔ حضرتِ علامہ اِبنِ رَجب حنبلی (حَم۔بَ۔لی) عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْقَوِی کہتے ہیں : ا ہلِ شام میں سے جلیل القدر تابعین مَثَلاً حضرت سیِّدُنا خالدبن مَعْدان ، حضرتِ سیِّدُنا مَکْحُول، حضرت سیِّدُنا لقمان بن عامررَحمَہُمُ اللہُ القَادِروغیرہ شبِ براءَت کی بہت تعظیم کرتے اور اس میں خوب عبادت بجا لاتے تھے، انہی سے دیگر مسلمانوں نے اِس مبارک رات کی تعظیم سیکھی۔ (لَطائِفُ الْمَعارِف ج۱ص۱۴۵) فقہ حنفی کی معتبر کتاب، ’’ دُرِّمُخْتار ‘‘ میں ہے: ’’ شبِ براءَ ت میں شب بیداری (کر کے عبادت) کرنا مستحب ہے، (پوری رات جا گنا ہی شب بیداری نہیں ) اکثر حصے میں جا گنا بھی شب بیداری ہے۔ ‘‘ (دُرِّ مُختار ج۲ ص ۵۶۸، بہارِ شریعت ج۱ص۶۷۹) مَدَنی التجا : ممکن ہو تو تمام اسلامی بھائی اپنی اپنی مساجِد میں بعد مغرب چھ نوافل وغیرہ کا اہتمام فرمائیں اور ڈھیروں ثواب کمائیں۔اسلامی بہنیں اپنے اپنے گھر میں یہ اعمال بجا لائیں ۔
دعوت اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ170 صَفحات پر مشتمل کتاب، ’’ اسلامی زندَگی ‘‘ صَفْحَہ134 پرہے: اگر اس رات(یعنی شبِ براء َت ) سات پتے بیری (یعنی بیر کے دَرخت ) کے پانی میں جوش دیکر(جب پانی نہانے کے قابل ہو جا ئے تو) غسل کرے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ تمام سا ل جا دو کے اثر سے محفوظ رہے گا۔
شب براءَ ت اور قبروں کی زیارت:
اُمُّ المؤمِنین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائشہ صدیقہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہافرماتی ہیں : میں نے ایک رات سرور کائنات، شاہِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نہ دیکھا تو بقیعِ پاک میں مجھے مل گئے ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے فرمایا : کیا تمہیں اس بات کا ڈر تھا کہاللہ عَزَّوَجَلَّاور اس کا رسول(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) تمہاری حق تلفی کریں گے؟ میں نے عرض کی: یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! میں نے خیال کیا تھا کہ شاید آپ اَزواجِ مطہرات(مُ۔طَہْ۔ہَرات ) میں سے کسی کے پاس تشریف لے گئے ہوں گے۔ تو فرمایا: ’’ بیشک اللہ تَعَالٰی شعبان کی پندرَہویں رات آسمانِ دُنیا پر تجلی فرماتا ہے، پس قبیلۂ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ گنہگاروں کو بخش دیتا ہے۔ ‘‘ (تِرمِذی ج۲ ص۱۸۳ حدیث۷۳۹)
شبِ بَرَاءَ ت میں اسلامی بھائیوں کا قبرستان جا نا سُنَّت ہے ( اسلامی بہنو ں کوشرعاًممنوع ہے) قبروں پر موم بتَّیّاں نہیں جلا سکتے ہاں اگر تِلاوت وغیرہ کر نا ہو تو ضرور تاً اُجا لا حاصل کرنے کے لئے قَبْر سے ہٹ کر موم بتی جلا سکتے ہیں ، اِسی طرح حاضِرین کو خوشبو پہنچانے کی نیت سے قَبْر سے ہٹ کر اگر بتَّیّا ں جَلانے میں حر ج نہیں ۔ مزاراتِ اولیا رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰیپر چادر چڑھا نا اور اس کے پاس چراغ جلانا جا ئز ہے کہ اس طرح لوگمُتَوَجِّہ ہوتے اور ان کے دلوں میں عظمت پیدا ہوتی اور وہ حاضر ہو کراِکتسابِ فیض کرتے ہیں۔ اگر اولیا اور عوام کی قَبْریں یکساں رکھی جا ئیں تو بہت سارے دینی فوائدختم ہو کر رَہ جا ئیں ۔
اَمیرُ المُؤمنین حضرتِ سَیِّدُنا عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایک مرتبہ شعبانُ الْمُعَظَّم کی پندرہویں رات یعنی شبِ براء ت عبادت میں مصروف تھے۔ سراُٹھایا تو ایک ’’ سبز پرچہ ‘‘ ملا جس کا نور آسمان تک پھیلا ہواتھا، اُس پر لکھا تھا: ’’ ہٰذِہٖ بَرَائَ ۃٌ مِّنَ النَّارِ مِنَ الْمَلِکِ الْعَزِیْزِ لِعَبْدِہٖ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیْزِ۔ ‘‘ یعنی خدائے مالک وغالب کی طرف سے یہ ’’ جہنَّم کی آگ سے آزادی کا پروانہ ‘‘ ہے جو اُس کے بندے عمر بن عبد العزیز کو عطا ہوا ہے۔ (تفسیر روح البیان ج۸ ص۴۰۲)
سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّوَجَلَّ! میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اِس حکایت میں جہاں اَمیرُ المُؤمنین سَیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی عظمت و فضیلت کا اظہار ہے وَہیں شبِ براء ت کی رِفعت و شرافت کا بھی ظہور ہے ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ یہ مبارَک شب جہنم کی بھڑکتی آگ سے براء ت ( بَر۔ا۔ئَ۔ت یعنی آزادی) پانے کی رات ہے اِسی لئے اِس رات کو ’’ شبِ بَرَاءَ ت ‘‘ کہا جا تا ہے۔