فیضان رمضان

            مفسرین کرام رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی سُوْرَۃُ الْقَدْر کے  ضمن میں  فرماتے ہیں :   ’’ اِس رات میں  اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے قراٰنِ کریم لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر نازِل فرمایا اور پھر تقریباً 23 برس کی مُدَّت میں  اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم پر اسے بتدرِیج نازِل کیا۔ ‘‘  ( تفسِیرِ صاوی ج۶ص۲۳۹۸)

            نَبِیِّ مُعَظَّم،  رَسُولِ مُحتَرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تَعَالٰی نے میری امت کو  شب قدر عطا کی اور یہ رات تم سے پہلے کسی امت کو عطا نہیں فرمائی۔ (اَلْفِردَوس بمأثور الْخِطاب ج۱ص۱۷۳حدیث۶۴۷)

 ہزار مہینوں سے بہترایک رات:

حضرتِ سیِّدُنا امام مجا ہد   عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَاحِد فرماتے ہیں :  بنی اسرائیل کا ایک شخص ساری رات عبادت کرتا اور سارا دن جہاد میں  مصروف رہتا تھا اور اس طرح اس نے ہزار مہینے گزارے تھے ، تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے یہ آیتِ مبارَکہ نازِل فرمائی :   ’’  لَیْلَةُ الْقَدْرِ ﳔ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ ‘‘  (ترجَمۂ کنز الایمان : شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر)  یعنی شب ِ قدر کا قیام اس عابد(یعنی عبادت گزار)  کی ایک ہزارمہینے کی عبادت سے بہتر ہے۔ (تَفسیرِ طَبَری ج ۲۴ ص ۵۳۳)

ہماری عمریں تو بہت قلیل ہیں:

اور ’’  تفسیرعزیزی ‘‘  میں  ہے: حضراتِ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننے جب حضرتِ  شمعون رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکی عبادات وجہاد کا تذکرہ سنا تو انہیں حضرتِ شمعون رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِپر بڑا رَشک آیا اور مصطَفٰے جا نِ رَحمت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی خدمتِ بابرکت میں  عرض کیا:   ’’  یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!ہمیں  تو بہت تھوڑی عمریں ملی ہیں ،  اِس میں  بھی کچھ حصہ نیند میں  گزرتا ہے تو کچھ طلب معاش میں  ،  کھانے پکانے میں  اور دیگر اُمورِ دُنیوی میں  بھی کچھ وَقت صرف ہوجا تا ہے۔لہٰذا ہم تو حضرتِ شمعون رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکی طرح عبادت کرہی نہیں سکتے ،  یوں بنی اِسرائیل ہم سے عبادت میں  بڑھ جا ئیں گے۔ ‘‘  اُمت کے  غمخوار آقا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم یہ سن کر غمگین ہوگئے۔ اُسی وَقت حضرتِ سَیِّدُنا جبرئیل اَمین عَلَيْهِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام لے کر حاضر خدمت بابرکت ہوگئے اور تسلی دے دی گئی کہ پیارے حبیب(صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم)  رَنجیدہ نہ ہوں ،  آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی اُمت کو ہم نے ہر سال میں  ایک ایسی رات عنایت فرمادی کہ اگر وہ اُس رات میں  عبادت کریں گے تو (حضرتِ)  شمعون (رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ)  کی ہزار ماہ کی عبادت سے بھی بڑھ جا ئیں گے۔  (ماخوذ از تفسِیرِ عزیزی ج۳ص۲۵۷)

 

با کرامت شمعون کی ایمان افروز حکایت:

انہی حضرتِ شمعون رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکے  بارے میں   ’’ مُکاشَفَۃُ الْقُلُوب ‘‘  میں  ایک نہایت اِیمان اَفروز حکایت بیان کی گئی ہے،  اِس کا مضمون کچھ اس طرح ہے:  بنی اسرائیل کے  ایک بزرگ حضرتِ شمعون رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے ہزار ماہ اِس طرح عبادت کی کہ رات کو قیام اور دِن کو روزہ رکھنے کے  ساتھ ساتھ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں  کفار کے  ساتھ جہاد بھی کرتے ۔ وہ اِس قدر طاقتور تھے کہ لوہے کی وَزنی اور مضبوط زنجیریں ہاتھوں سے توڑ ڈالتے تھے۔ کفارِ ناہنجا ر نے جب دیکھا کہ حضرتِ شمعو نرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ پر کوئی بھی حربہ کار گر نہیں ہوتا توباہم مشورہ کرنے کے  بعد مال و دولت کا لالچ دے کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکی زَوجہ کو اِس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ کسی رات نیند کی حالت میں  پائے توانہیں مضبوط رَسیوں سے باندھ کر اِن کے  حوالے کردے۔ بے وَفا بیوی نے ایساہی کیا ۔ جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِبیدار ہوئے اور اپنے آپ کو رَسیوں سے بندھا ہوا پایا تو فوراً اپنے اَعضا کوحرکت دی،  دیکھتے ہی دیکھتے رسیاں ٹوٹ گئیں اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِآزاد ہوگئے۔ پھر اپنی بیوی سے اِستفسار کیا:   ’’ مجھے کِس نے باندھ دیا تھا؟ ‘‘  بے وفا بیوی نے جھوٹ موٹ کہہ دیا کہ میں  نے تو آپ کی طاقت کا اندازہ کرنے کے  لئے ایساکیا تھا۔ بات رَفع دَفع ہوگئی۔

            بے وفا بیوی موقع کی تاک میں  رہی ۔ ایک بار پھرجب نیند کا غلبہ ہوا تو اُس ظالمہ نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکو لوہے کی زنجیروں میں  اچھی طرح جکڑ دیا۔ جوں ہی آنکھ کھلی ،  آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے ایک ہی جھٹکے  میں  زنجیر کی ایک ایک کڑی الگ کردی اورآزاد ہوگئے ۔ بیوی یہ دیکھ کر سٹپٹا گئی مگر پھر مکاری سے کام لیتے ہوئے وُہی بات دُہرادی کہ میں  توآپ (رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ)  کو آزما رہی تھی۔دَورانِ گفتگو( حضرتِ )    شمعون(رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ) نے اپنی بیوی کے  آگے اپنا راز اِفشا(یعنی ظاہر)  کر تے ہوئے فرمایا:  مجھ پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا بڑا کرم ہے،  اُس نے مجھے اپنی وِلایت کا شرف عنایت فرمایا ہے،  مجھ پر دُنیا کی کوئی چیز اَثر نہیں کرسکتی مگر ،    ’’ میرے سر کے  بال۔  ‘‘  چالاک عورت ساری بات سمجھ گئی۔

            آہ! اُسے دُنیا کی مَحَبَّت نے اندھا کردیا تھا۔ آخر ایک بار موقعہ پاکر اُس نے آپ (رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ)  کو آپ(رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ)  ہی کے  اُن آٹھ گیسوؤں (یعنی زلفوں )  سے باندھ دیا جن کی درازی زَمین تک تھی۔ ( یہ اگلی اُمت کے  بزرگ تھے،  ہمارے آقا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی سنّتِ گیسو آدھے کان ،  پورے کان اور

Index