شخص چھت پرظاہر ہوا، اُس نے کھانوں سے بھرا ہوا ایک خوان پیش کیااور کہا: اے نجیب الدین ! تمہارے توَکُّل کی دُھوم مَلاءِ اعلٰی (یعنی فرشتوں ) میں مچی ہوئی ہے اور تمہارا حال یہ ہے کہ تم ایسے خیال( یعنی کھانا طلبی) میں مشغول ہو! آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: ’’ حق تعالیٰ عَزَّوَجَلَّ خوب جا نتا ہے کہ میں اپنی ذات کے لئے نہیں صرف اپنے مہمانوں کے باعث اِس طرف مُتَوَجِّہ ہوگیا تھا۔ ‘‘ حضرتِ سیِّدُنا نجیب الدین مُتَوکِّل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ صاحبِ کرامت ہونے کے باوجود اِنتہائی مُنْکَسِرُالْمِزاج تھے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی اِنکساری کا یہ عالم تھا کہ ایک روز ایک فقیر بہت دُور سے ملاقات کیلئے آیا اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے پوچھا کہ کیا نجیب الدین مُتَوَکِّل(یعنی توکُّلکرنے والا) آپ ہی ہیں ؟ تو اِنکساراً فرمایا کہ بھائی! میں تو نجیب الدین مُتَأَکِّل(یعنی بہت زیادہ کھانے والا ) ہوں ۔ ( اَخبارُ الاخیار ص۶۰مُلَخّصاً) اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجا ہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!اِس حکایت سے معلوم ہوا کہاللہ عَزَّوَجَلَّجب چاہتا ہے اپنے دوستوں کی ضروریات کاغیب سے انتظام فرما دیتا ہے ۔ بوقت ضرورت کھانا، پانی وغیرہ ضروریات ِ زندگی کا اچانک حاضر ہوجا نا بزرگوں سے کرامت کے طور پر وُقوع میں آتا ہے۔ چنانچہ ’’ شرحِ عقائدِنسفیہ ‘‘ میں جہاں کرامت کی چند اَقسام کا بیان ہے وَہاں یہ بھی مَذکور ہے کہ ضرورت کے وَقت کھانے پانی کا حاضر ہوجا نا بھی کرامت ہی کا ایک شعبہ ہے ۔بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْنکے خداداد تصرفات وکرامات کا کیا کہنا ؟یہ ایسے مقبولانِ بارگاہِ خداوندیعَزَّوَجَلَّہوتے ہیں کہ اُن کی زَبانِ پاک سے نکلی ہوئی بات اور دِل میں پیدا ہونے والی خواہشات ربِّ کائناتعَزَّوَجَلَّاپنی رحمت سے پوری فرما دیتا ہے۔
سَیِّدُنا عبدُ الرَّحمٰن بِن عَمْرْو اَوْزاعی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ بَیان کرتے ہیں کہ عِیْدُ الفِطْر کی شب دروازے پر دَستک ہوئی ، دیکھا تومیرا ہمسایہ کھڑا تھا۔ میں نے پوچھا: کہو بھائی !کیسے آنا ہوا؟اُس نے کہا: ’’ کل عید ہے لیکن خرچ کیلئے کچھ نہیں ، اگر آپ کچھ عنایت فرمادیں تو عزت کے ساتھ ہم عید کا دِن گزارلیں گے۔ ‘‘ میں نے اپنی بیوی سے کہا: ہمارا فلاں پڑوسی آیا ہے اُس کے پاس عید کیلئے ایک پیسہ تک نہیں ، اگر تمہاری رائے ہو تو جو پچیس دِرہم ہم نے عید کیلئے رکھ چھوڑے ہیں اس کو پیش کر دیں ہمیں اللہ تَعَالٰی اور دیدے گا۔ نیک بیوی نے کہا: بہت اچھا۔ چنانچہ میں نے وہ سب دِرہم اپنے ہمسائے کے حوالے کردئیے، وہ دُعائیں دیتا ہوا چلاگیا۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر کسی نے دروازہ کَھٹکَھٹایا۔ میں نے جونہی دروازہ کھولا، ایک آدمی آگے بڑھ کر میرے قدموں پر گر پڑا اور رو روکر کہنے لگا: میں آپ کے والد کابھاگا ہوا غلام ہوں ، مجھے اپنی حرکت پر بہت ندامت لاحق ہوئی توحاضر ہو گیا ہوں ، یہ پچیس دینار میری کمائی کے ہیں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں قبول فرمالیجئے، آپ میرے آقا ہیں اور میں آپ کا غلام ۔میں نے وہ دِینار لے لئے اور غلام کو آزاد کردیا۔ پھر میں نے اپنی بیوی سے کہا: خدا عَزَّوَجَلَّکی شان دیکھو!اُس نے ہمیں دِرہم کے بدلے دِینار عطا فرمائے(پہلے درہم چاندی کے اور دینار سونے کے ہوتے تھے) ! اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجا ہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
سلام اُس پر کہ جس نے بیکسوں کی دستگیری کی:
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے ؟ اللہ عَزَّوَجَلَّکی شان بھی کتنی نرالی ہے کہ اُس نے پچیس دِرہم(چاندی کے سکے ) دینے والے کو آن کی آن میں پچیس دِینار (سونے کے سکے ) عطا فرمادئیے۔ اور بزرگانِ دینرَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْنکا اِیثار بھی خوب تھا کہ وہ اپنی تمام تر آسائشیں دُوسرے مسلمانوں کی خاطر قربان کردیتے تھے۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اپنے دل میں عظمت مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّمبڑھانے، سینے میں شمعِ اُلفتِ مُصطَفٰے جلانے اور عید سعید کی حقیقی خوشیاں پانے کیلئے ہو سکے تو چاند رات کو دعوتِ اسلامی کے مَدَنی قافِلوں میں عاشقانِ رسول کے ساتھ سنتوں بھرے سفر کی سعادت حاصل کیجئے۔ مَدَنی قافلے کی برکتیں تو دیکھئے! بابُ المدینہ کراچی کے ایک اسلامی بھائی کے بیان کا خلاصہ ہے، کوئٹہ میں ہونے والے تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوت اسلامی کے تین روزہ سنتوں بھرے اجتماع میں شریک ایک بہرے اسلامی بھائی نے ہاتھوں ہاتھ تین دن کے سنتوں کی تربیت کے مَدَنی قافلے میں عاشِقانِ رسول کے ساتھ سفر کی سعادت حاصِل کی ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ دَورانِ سفر ہی ان کی قوتِ سماعت بحال ہو گئی اور وہ عام لوگوں کی طرح سننے لگے۔