فیضان رمضان

وہ اسلامی بھائی مَاشَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّبَہُت جذبے والے تھے ،  مایوس نہ ہوئے بلکہ ان کے  گھر جا  پہنچے اور بار بار اِصرار کرنے لگے ۔ اُن کی مسلسل اِنفرادی کوشِش کے  نتیجے میں  اعتکاف شروع ہونے سے ایک دن قبل انہوں نے نام لکھوادیا،  اور آخری عشرۂ رَمَضَانُ المُبارَک ۱۴۲۲؁ ھ جا مع مسجد نعیمیہ (لالہ رُخ، واہ کینٹ)  کے  اندر عاشقانِ رسول کے  ساتھ مُعتَکِف ہو گئے۔  اجتماعی اعتکا ف کے  پرسوز ماحول او ر عاشقانِ رسول کی صحبت نے ان کی دِلی کیفیت بدل ڈالی! وہاں ادا کی جا نے والی تہجُّد ،  اِشراق،  چاشت اور اَوّابین کے  نوافل کی پابندی نے گزشتہ زندگی میں  فرض نمازیں نہ پڑھنے پر انہیں سخت شرمندہ کیا،  آنکھوں سے ندامت کے  آنسو جا ری ہو گئے اور انہوں نے دل ہی دل میں  نمازوں کی پابندی کی نیت کر لی۔ پچیسو۲۵یں شب  دُعا میں  ان پر اِس قَدَر رِقت طاری تھی کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے۔ اسی عالم میں  ان پر غنودگی طاری ہو گئی اور وہ خواب کی دنیا میں  پہنچ گئے،  کیا دیکھتے ہیں کہ ایک پر وقار و نوربار چہرے والی شخصیت موجود ہے اور ان کے  ارد گرد کافی ہجوم ہے۔ انہوں نے کسی سے پوچھا تو انہیں بتایا گیا کہ یہ آقا ئے مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں ۔  انہوں نے دیکھا تو سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سبزسبز عمامہ شریف کا تاج سجا  رکھا تھا۔ کچھ دیر تک وہ دیدار سے آنکھیں ٹھنڈی کر تے رہے ،  جب بیدا ر ہوئے تو صلوٰۃ وسلام پڑھا جا  رہا تھا ان کی کیفیت بہت عجیب و غریب تھی، جسم پر لرزہ طاری تھا،  ہچکیاں باندھ کر روئے جا  رہے تھے اور آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ صلوٰۃ و سلام کے  بعد مجلس برائے اعتکاف کے  نگران کے  سامنے عمامے کا تاج سجا نے والوں کی قِطار بندھی ہوئی تھی اورسرکارِ اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کے  لکھے ہوئے اس نعتیہ شعر کی تکرار جا ری تھی:     ؎

تاج والے دیکھ کر تیرا عمامہ نور کا

سر جھکاتے ہیں الٰہی بول بالا نور کا           (حدائقِ بخشش ص۲۴۳)

            وہ اپنے قریبی اِسلامی بھائیوں کوبمشکل تمام صرف اِتنا کہہ پائے:   ’’ میں  نے بھی عمامہ باندھنا ہے۔ ‘‘ تھوڑی ہی دیر میں  روتے روتے وہ بھی عمامے کا تاج سجا  چکے  تھے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّانہوں نے اِعتکاف ہی میں  ایک ماہ کے  مَدَنی قافلے میں  سفر کی نیّت بھی کی اور اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّمَدَنی قافلے میں  سفر بھی کیا، سفر کے  دَوران بہت کچھ سیکھنے کے  ساتھ ساتھ درس و بیان بھی سیکھ کر کر نے لگے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ نَمازوں کی پابندی کے  ساتھ ساتھ دَعوتِ اِسلامی کے  مَدَنی کاموں میں  حصہ لینے لگے۔ انہیں ذیلی مُشاوَرت کے  نگران کے  طور پر مَدَنی کاموں کی دھومیں  مچانے کی سعادت بھی ملی۔

گر تمنَّا ہے آقا کے  دیدار کی،  مَدنی ماحول میں  کر لو تم اعتکاف

ہوگی میٹھی نظر تم پہ سرکار کی،  مَدنی ماحول میں  کر لو تم اعتکاف (وسائلِ بخشش ص۶۴۰)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 ’’ عید ‘‘  کے  تین حُرُوف کی نسبت سے شش عید کے  روزوں کے  فضائل پرمشتمل تین فرامین مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ

نومولود کی طرح گناہوں سے پاک:

 {۱}  ’’ جس نے رَمَضان کے  روزے رکھے پھر چھ دن شَوّال میں  رکھے تو گناہوں سے ایسے نکل گیا جیسے آج ہی ماں کے  پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔ ‘‘

(مَجْمَعُ الزَّوَائِد ج۳ص۴۲۵حدیث۵۱۰۲)

گویا عمر بھر کا روزہ رکھا:

 {۲}  ’’ جس نے رَمَضان کے  روزے رکھے پھران کے  بعد چھ دن شوال میں  رکھے،  توایسا ہے جیسے دَہْر کا (یعنی عمر بھرکیلئے) روزہ رکھا۔ ‘‘   (مُسلِم ص۵۹۲حدیث۱۱۶۴)

سال بھر روزے رکّھے:

 {۳}   ’’ جس نے عیدُالْفِطْر کے  بعد(شوال میں  )  چھ روزے رکھ لئے تو اُس نے پورے سال کے  روزے رکھے کہ جو ایک نیکی لائے گا اُسے دس ملیں گی۔ تو ماہِ رمضان کا روزہ دس مہینے کے  برابر ہے اور ان چھ دنوں کے  بدلے میں  دومہینے تو پورے سال کے  روزے ہوگئے۔ ‘‘ (اَلسّنَنُ الکُبریلِلنَسائی ج۲ ص۱۶۲، ۱۶۳حدیث۲۸۶۰، ۲۸۶۱)  

شش عید کے  روزے کب رکھے جا ئیں ؟:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!صَدرُالشَّریعہ، بَدرُالطَّریقہ، حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْقَوِی ’’  بہار شریعت ‘‘  کے  حاشیے میں  فرماتے ہیں :   ’’ بہتر یہ ہے کہ یہ روزے متفرق (مُ۔تَ۔فَر۔رِق یعنی جدا جدا) رکھے جا ئیں اور عید کے  بعد لگاتار چھ دن میں  ایک ساتھ رکھ لیے،  جب بھی حرج نہیں ۔ ‘‘ (دُرِّمُختارج۳ ص۴۸۵، بہارِ شریعت ج۱ص۱۰۱۰)

 

Index