میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! خدا را! اپنے حالِ زار پر ترس کھایئے اور غور فرمایئے! کہ روزہ دار ماہِ رَمَضانُ المُبارَک میں دن کے وَقت کھانا پینا چھوڑدیتا ہے حالانکہ یہ کھانا پینا اِس سے پہلے دِن میں بھی بِالکل جا ئز تھا، اب خود ہی سوچ لیجئے کہ جو چیزیں رَمضان شریف سے پہلے حلال تھیں وہ بھی جب اِس مبارَک مہینے کے مقدس دِنوں میں منع کردی گئیں تو جو چیزیں رَمَضانُ المبارَک سے پہلے بھی حرام تھیں ، مَثَلاً جھوٹ، غیبت، چغلی، بد گمانی، گالم گلوچ، فلمیں ڈرامے، گانے باجے، بد نگاہی، داڑھی منڈانا یا ایک مٹھی سے گھٹانا، والدین کو ستانا، لوگوں کا دل دُکھانا وغیرہ وہ رَمَضانُ المبارَک میں کیوں نہ اور بھی زیادہ حرام ہوجا ئیں گی! روزہ دار جب رَمَضانُ المبارَک میں حلال وطیب کھانا پینا چھوڑدیتا ہے، حرام کام کیوں نہ چھوڑے؟ اب فرمائیے ! جو شخص پاک اور حلال کھانا پینا تو چھوڑ دے لیکن حرام اور جہنم میں لے جا نے والے کام بدستور جا ری رکھے وہ کس قسم کا روزہ دار ہے؟
اللہ عَزَّوَجَلَّ کو کچھ حاجت نہیں :
یاد رکھئے! نبیوں کے سلطان، سرورِ ذیشان، محبوبِ رَحْمٰن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ عبرت نشان ہے: ’’ جو بری بات کہنا اور اُ س پر عمل کرنا نہ چھوڑے تواللہ عَزَّوَجَلَّکو اس کی کچھ حاجت نہیں کہ اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا ہے۔ ‘‘ (بُخاری ج۱ص۶۲۸حدیث۱۹۰۳)
حضرت عَلَّامہ علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِیاس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : بُری بات سے مُرادہر ناجا ئز گفتگو ہے جیسے جھوٹ، بہتان، غیبت، تہمت، گالی، لعن طعن وغیرہ جن سے بچنا ضروری ہے ۔(مِرقاۃ المفاتیح ج ۴ص۴۹۱) ایک اور مقام پر فرمانِ مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے: ’’ صِرف کھانے اور پینے سے باز رہنے کا نام روزہ نہیں بلکہ روزہ تو یہ ہے کہ لَغْو اور بے ہُودہ باتوں ( یعنی وہ بات جس کے کرنے میں مَعاصی ( یعنی نافرمانی) ہے اُس) سے بچا جا ئے ۔ ‘‘ (المُستَدرَک ج ۲ ص ۶۷ حدیث ۱۶۱۱ )
حضور سراپا نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالیشان ہے: تم سے اگر کوئی لڑائی کرے، گالی دے تو تم اُس سے کہہ دو کہ میں روزے سے ہوں ۔ (اَلتَّرغِیب وَالتَّرہِیب ج۱ص۸۷حدیث۱)
اَعضا کا روزہ یعنی ’’ جسم کے تمام حصوں کو گناہوں سے بچانا۔ ‘‘ یہ صرف روزوں ہی کیلئے مخصوص نہیں ، بلکہ پوری زندگی اِن اَعضا کو گناہوں سے بچانا ضروری ہے اور یہ جبھی ممکن ہے کہ ہمارے دِلوں میں خوب خوفِ خدا عَزَّوَجَلَّ پیدا ہوجا ئے۔آہ! قیامت کے اُس ہوشربا منظر کو یاد کیجئے جب ہر طرف ’’ نفسی نفسی ‘‘ کا عالم ہوگا، سورج آگ برسا رہا ہوگا، زَبانیں شدتِ پیاس کے سبب منہ سے باہر نکل پڑی ہوں گی، بیوی شوہر سے، ماں اپنے لخت جگر سے اور باپ اپنے نورِ نظرسے نظربچا رہا ہوگا، مجرموں کو پکڑ پکڑ کر لایا جا رہا ہوگا، اُن کے منہ پرمہر ماردی جا ئے گی اور اُن کے اَعضا اُن کے گناہوں کی داستان سنارہے ہوں گے جس کا ’’ سُوْرَۃُ یٰسٓ ‘‘ کی آیت نمبر 65 میں یوں تذکرہ کیاگیا ہے:
اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۶۵)
ترجَمۂ کنزالایمان: آج ہم اِن کے مونہوں پر مہر کردیں گے اور ن کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے کئے کی گواہی دیں گے۔
آہ !اے کمزور وناتواں اسلامی بھائیو!قیامت کے اُس کڑے وَقت سے اپنے دِل کو ڈرایئے اور ہر وَقت اپنے اَعضائے بَدَن کومعصیت (یعنی نافرمانی ) سے باز رکھئے۔ اب اَعضا کے روزے کی تفصیلات پیش کی جا تی ہیں :
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! آنکھ کا روزہ اِس طرح رکھنا چاہئے کہ آنکھ جب بھی اُٹھے تو صرف اورصرف جا ئز اُمور ہی کی طرف اُٹھے۔آنکھ سے مسجِد دیکھئے، قراٰنِ کریم دیکھئے ، مزاراتِ اَولیا رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی کی زیارت کیجئے ، علمائے کرام، مشائخِ عظام اور اللہ تَبارَکَ وَ تَعَالٰی کے نیک بندوں کا دیدار کیجئے ، اللہ عَزَّوَجَلَّدِکھائے تو کعبۂ مُعَظَّمہ کے اَنوار دیکھئے ، مکّۂ مُکرّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًکی مہکی مہکی گلیاں اور وہاں کے وادی و کہسار دیکھئے، مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًکے دَرودیوار دیکھئے، سبز سبز گنبدومینار دیکھئے ، میٹھے میٹھے مدینے کے صحرا و گلزار دیکھئے ، سنہری جا لیوں کے اَنوار دیکھئے ، جنت کی پیاری پیاری کیاری کی بہار دیکھئے۔ تاجدارِ اہل سنت حضور مفتی ٔاَعظم ہند سَیِّدُنا محمد مصطَفٰے رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنخدائے حنان و منانعَزَّوَجَلَّکی بارگاہِ بے کس پناہ میں عرض کرتے ہیں : ؎
کچھ ایسا کر دے مِرے کرد گار آنکھوں میں ہمیشہ نقش رہے رُو ئے یار آنکھوں میں
انہیں نہ دیکھا تو کس کام کی ہیں یہ آنکھیں کہ دیکھنے کی ہے ساری بہار آنکھوں میں
( سامانِ بخشش شریف)