اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ ’’ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہ ‘‘ کی بات بھی ضمْناً زیر بحث آگئی، اب اصل موضوع پر آتے ہیں : نماز، حج ، زکوٰۃ ، غربا کی اِمداد ، بیماروں کی عِیادت، مساکین کی خبر گیری وغیرہ تمام اَعمالِ خیر سے جنت ملتی ہے، مگر روزہ وہ عبادت ہے جس سے جنت والا یعنی خود مالک حقیقی عَزَّوَجَلَّ ہی مِل جا تا ہے۔کہتے ہیں : ایک مرتبہ محمود غزنویعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی کے کچھ قیمتی موتی اپنے افسران کے سامنے بکھر گئے فرمایا: ’’ چن لیجئے! ‘‘ اور خود آگے چل دئیے۔تھوڑی دُور جا نے کے بعد مڑکر دیکھا تو اَیاز گھوڑے پر سُوار پیچھے چلاآرہا ہے۔پوچھا: اَیاز !کیا تجھے مَوتی نہیں چاہئیں ؟ ایاز نے عرض کی: ’’ عالی جا ہ!جو موتیوں کے طالب تھے وہ موتی چن رہے ہیں ، مجھے تو موتی نہیں بلکہ موتیوں والا چاہیے۔ ‘‘ (بوستانِ سعدی ص۱۱۰ مُلَخّصاً)
ہم رسولُ اللہ (صلَّی اللہ تَعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کے
جنت رسولُ اللہ (صلَّی اللہ تَعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی
اِس سلسلے میں ایک حدیث مبارَک بھی مُلاحظہ فرمائیے: حضرتِ سَیِّدُنا رَبِیعہ بن کعب اَسْلَمی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہ فرماتے ہیں : میں رات حضور، سراپا نور، فیض گَنجور، شاہِ غیور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں گزارتا تھاتو میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس وُضوکا پانی اور آپ کی ضرورت کی چیزیں (جیسے مسواک) لے کر حاضر ہوا تو رَحمۃٌ لِّلْعٰلَمِین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: سَلْ! یعنی مانگ کیا مانگتا ہے؟ میں نے عرض کی: اَسْئَلُکَ مُرَافَقَتَکَ فِی الْجَنَّۃ، یعنی سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جنَّت میں آپ کی رَفاقت (یعنی پڑوس) چاہئے۔ (گویا عَرض کررہے ہیں : )
تجھ سے تجھی کو مانگ لوں توسب کچھ مل جا ئے
سو سوالوں سے یہی ایک سوال اچھا ہے
(دریائے رَحمت مزیدجوش میں آیا) اور فرمایا: ’’ اَوَ غَیْرَ ذٰلِکَ؟ یعنی کچھ اور مانگنا ہے؟ ‘‘ میں نے عرض کی: ’’ بس صرف یہی۔ ‘‘ ؎
تجھ سے تجھی کو مانگ کر مانگ لی ساری کائنات
مجھ سا کوئی گدا نہیں ، تجھ سا کوئی سخی نہیں
(جب حضرتِ سَیِّدُنا رَبِیعہ بِن کعب اَسلمی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہ جنت کی رَفاقت (پڑوس) طلب کرچکے اور مزید کسی حاجت کے طلب کرنے سے اِنکار کر دیا) تو اِس پر سرکارِ نامدار، بِاِذنِپروَردگار دوعالم کے مالِک ومختار، شہنشاہِ اَبرار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’ فَاَعِنِّیْ عَلٰی نَفْسِکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُوْد ‘‘ یعنی ا پنے نفس پر کثرتِ سُجُود( یعنی زِیادہ نوافل) سے میری مدد کر۔( مسلم ص۲۵۳ حدیث ۴۸۹)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سُبْحٰنَ اللہِ! سُبْحٰنَ اللہِ! سُبْحٰنَ اللہِ! اِس حدیثِ مبارَک نے تو ایمان ہی تازہ کردیا ۔ حضرت سَیِّدُنا شیخ عبد الحق محدث دِہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بلاکسی تَقْیِیْد وتَخْصِیص مُطْلَقاً فرمانا: سَلْ؟ یعنی مانگ کیا مانگتا ہے؟اِس بات کو ظاہِر کرتا ہے کہ سارے ہی مُعاملات سرورِ کائنات، شاہِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مبارَک ہاتھ میں ہیں ، جو چاہیں جس کو چاہیں اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے عطا کردیں ۔علامہ بوصیری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ قصیدۂ بردہ شریف میں فرماتے ہیں : ؎
فَاِنَّ مِنْ جُوْدِکَ الدُّنْیَا وَضَرَّتَھَا وَمِنْ عُلُوْمِکَ عَلْمَ اللَّوْح ِوَالْقَلَمِ
یعنی یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! دُنیااور آخرت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کے جود وسخاوت کا حصہ ہے اورلوح وقلم کا علم تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علومِ مبارَکہ کا ایک حصہ ہے۔ ؎
اگر خیریت دُنیا و عقبی آرزو داری
بَدرگاہش بیادِ ہر چِہ من خواہی تمنا کن
یعنی دُنیا وآخرت کی خیر چاہتے ہو تو اِس آستانِ عرش نشان پر آؤ اور جو چاہو مانگ لو! (اَشِعَّۃُ اللَّمعات ج ۱ ص ۴۲۴ ، ۴۲۵ وغیرہ )
خالِقِ کل نے آپ کو مالک کل بنا دیا
دونوں جہان دے دئیے قبضہ و اِختیار میں
’’ رَمَضَانُ الْکَرِیْم ‘‘ کے گیارہ حروف کی نسبت سے روزے کے فضائل سے متعلق11فرامین مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ