فیضان رمضان

!دُنیوی شخصیت کا کلام تو توجہ کے  ساتھ سنا جا تا ہے مگر سب کے  خالق و مالک اپنے پیارے پیا رے اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّ کا پاکیزہ کلام دھیان سے نہ سنا، ساتھ ہی یہ بھی غم ہو کہ افسوس ! اب ماہِ رَمَضانُ الْمُبارَک چند گھڑیوں کا مہمان رَہ گیا ، نہ جا نے آیند ہ سال اس کی تشریف آوَری کے  وَقت اس کی بہاریں لوٹنے کیلئے میں  زندہ رہوں گایا نہیں !اِس طرح کے  تصورات جما کر اپنی غفلتوں پر خود کو شرمندہ کرے اور ہوسکے  تو روئے اگر رونا نہ آئے تو رونے کی سی صورت بنائے کہ اچھوں کی نقل بھی اچھی ہے، اگر کسی کی آنکھ سیمَحَبَّتِ قراٰن و فراقِ رَمضان میں  ایک آدھ قطرہ آنسو ٹپک کر مقبولِ بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ ہو گیا تو کیا بعید کہ اُسی کے  صدقے خدائے غفار عَزَّوَجَلَّ سبھی حاضرین کو بخش دے۔

لاج رکھ لے گناہ گاروں کی                نام ر حمٰن ہے تِرا یارب!

عیب میرے نہ کھول محشر میں                          نام ستار ہے تِرا یارب!

بے سبب بخش دے نہ پوچھ عمل           نام غفار ہے تِرا یارب!

تو کریم اور کریم بھی ایسا!

کہ نہیں جس کا دوسرا یارب!    (ذوقِ نعت)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

تراویح کی جماعت بدعت حسنہ ہے:

اللہ عَزَّوَجَلَّ کے  محبوب ، دانائے غُیُوب،  مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خود بھی تراویح ادا فرمائی اور اسے خوب پسند بھی فرمایا،  چنانچہ صاحب قراٰن،  مدینے کے  سلطان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان ہے:   ’’ جو ایمان و طلبِ ثواب کے  سبب سے رَمضان میں  قیام کرے اُس کے  پچھلے گناہ(یعنی صغیرہ گناہ)  بخش دیئے جا ئیں گے۔ ‘‘ ([1])  پھر سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس اندیشے کی وجہ سے ترک فرمائی کہ کہیں امّت پر (تراویح) فرض نہ کر دی جا ئے([2])  ۔  ’’ بخاری شریف ‘‘  میں  ہے :  امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے (اپنے دورِ خِلافت میں  )  ماہِ رَمَضان المُبَارَککی ایک رات مسجد میں  دیکھا کہ لوگ جدا جدا انداز پر (تراویح)  اداکر رہے ہیں ،  کوئی اکیلا تو کچھ حضرات کسی کی اقتدا میں  پڑھ رہے ہیں ۔ یہ دیکھ کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: میں  مناسب خیال کرتا ہوں کہ ان سب کو ایک امام کے  ساتھ جمع کردوں ۔ لہٰذا آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت سیّد نا اُبَی بِن کَعْب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کوسب کا امام بنا دیا،  پھر جب دوسری رات تشریف لائے اور دیکھا کہ لوگ باجماعت (تراویح)  ادا کر رہے ہیں ( توبہت خوش ہوئے اور)   فرمایا:   نِعْمَ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہٖ۔ یعنی ’’  یہ اچّھی بدعت ہے۔ ‘‘  (بُخاری ج۱ص۶۵۸حدیث۲۰۱۰)

            میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! محبوبِ ر بِّ ذُوالجلال صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ہمارا کتنا خیال ہے ! محض اِس خوف سیجماعتِ تراویح پر ہمیشگی نہ فرمائی کہ کہیں اُمّت پر فرض نہ کر دی جا ئے۔ اِس حدیثِ پاک سے بعض وَساوِس کا علا ج بھی ہو گیا۔مثَلاً تراویح کی باقاعدہ جماعت سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی جا ری فرما سکتے تھے مگر نہ فرمائی اور یوں اسلام میں  اچھے اچھے طریقے رائج کرنے کا اپنے غلاموں کو موقع فراہم کیا ۔ جو کام شاہِ خیر الانام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نہیں کیا وہ کام سیّدُِنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے محض اپنی مرضی سے نہیں کیا بلکہ سرکارِ عالمِ مدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ

 

 وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تا قِیا مت ایسے اچھے اچھے کام جا ری کرتے رہنے کی اپنی حیاتِ ظاہِری میں  ہی اجا زت مَرحمت فرمادی تھی۔چنانچہ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے:   ’’ جو کوئی اسلام میں  اچھا طریقہ جا ری کرے اُس کو اس کا ثواب ملے گااور اُس کا بھی جو (لوگ)  اِس کے  بعداُس پر عمل کریں گے اور اُن کے  ثواب سے کچھ کم نہ ہو گا اور جو شخص اِسلام میں  برا طریقہ جا ر ی کرے اُس پر اِس کا گناہ بھی ہے اور ان (لوگوں )  کا بھی جو اِس کے  بعد اِس پر عمل کریں اور اُن کے  گناہ میں  کچھ کمی نہ ہو گی۔ ‘‘  ( مُسلم ص۵۰۸حدیث۱۰۱۷)

 ’’  کرم یانبی اللہ  ‘‘ کے  بارہ حروف کی نسبت

سے12اچھے کام یعنی بدعاتِ حسنہ

            اِس حدیثِ مبارَک سے معلو م ہوا،  قیامت تک اسلام میں  اچھے اچھے نئے طریقے جا ری کرنے کی اجا زت ہے اور اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّنکالے بھی جا ر ہے ہیں جیسا کہ  {۱}  امیرُ الْمُؤمِنِینحضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے تراویح کی باقاعدہ جماعت کا اہتمام کیا اور اس کو خود  ’’ اچھی بدعت ‘‘  بھی قرار دیا۔ اِس سے یہ بھی معلو م ہوا کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے  وِصال ظاہری کے  بعد صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان بھی جونیا اچھا کام جا ری کریں وہ بھی بدعت



[1]     صحیح بخاری ج۱ص۶۵۸حدیث۲۰۰۹

[2]     ایضاًحدیث۲۰۱۲

Index