فیضان رمضان

دِن ہے،  نئے کپڑے پہننا ضروری تو نہیں !  ‘‘   ’’  ابو جا ن!  ! آپ کا فرمانا بیشک دُرُست ہے لیکن ہماری سہیلیاں ہمیں  طعنے دیں گی کہ تم امیرُ المؤمنین کی لڑکیاں ہو اور عید کے  روز بھی وُہی پرانے کپڑے پہن رکھے ہیں !  ‘‘  یہ کہتے ہوئے بچیوں کی آنکھوں میں  آنسو بھر آئے ۔ بچیوں کی باتیں سن کر امیرُالْمُؤمِنِین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا دِل بھی پسیج گیا۔ خازِن (وزیر مالیات)  کو بلا کر فرمایا:  ’’ مجھے میری ایک ماہ کی تنخواہ پیشگی لادو۔  ‘‘  خازِن نے عرض کی:   ’’ حضور!  کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ ایک ماہ تک زندہ رہیں گے؟ ‘‘  فرمایا:   ’’ جَزَاکَ اللّٰہ!بے شک! تم نے صحیح اور عمدہ بات کہی۔  ‘‘  خازِن چلا گیا۔آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بچیوں سے فرمایا:   ’’ پیاری بیٹیو! اللہ و رَسُولَ عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم کی رِضا پر اپنی خواہشات قربان کردو۔ ‘‘  (مَعْدَنِ اَخلاق حصۂ اوّل ص ۲۵۷ تا ۲۵۸ بتغیرٍ قلیل)   اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے  صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجا ہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

والد مرحوم پر کرم:

احتیاطوں بھرا مَدَنی ذہن بنانے کیلئے مَدَنی قافِلے میں  سفر کی سعادت حاصِل کیجئے ،  مَدَنی قافلے کی برکتوں کے  کیا کہنے ! نشتربستی( بابُ المدینہ کراچی)  کے  ایک اسلامی بھائی نے جو کچھ بیان کیاوہ بِالتَّصَرُّفعرض کرتا ہوں :  میں  نے اپنے والدِ مرحوم کو خواب میں  اِنتِہائی کمزوری کی حالت میں  برہنہ  (بَ۔رَہ۔نَہ) کسی کے  سہارے پر چلتا ہوا دیکھا۔ مجھے تشویش ہوئی۔ میں  نے ایصالِ ثواب کی نیت سے ہر ماہ تین دن کے  مَدَنی قافلے میں  سفر کی نیت کر لی اور سفر شروع بھی کر دیا۔ تیسرے ماہ مَدَنی قافلے سے واپسی کے  بعد جب گھر پر سویا تو میں  نے خواب میں  یہ دِلکش منظر دیکھا کہ والد مرحوم سبزسبز لباس زیبِ تن کئے بیٹھے مسکرا رہے ہیں اور ان پر بارِش کی ہلکی پھلکی پھوار برس رہی ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ مَدَنی قافلے میں  سفر کی اَھَمِّیَّت مجھ پر خوب اُجا گر ہوئی اور اب پکی نیت ہے کہ اِنْ شَآءَاللہ عَزّوَجَلَّ ہر ماہ تین دن کیلئے عاشقانِ رسول کے  ساتھ سفر جا ری رکھوں گا ۔

قافلے میں  ذرا مانگو آکر دُعا     پاؤ گے نعمتیں ،  قافِلے میں  چلو

خوب ہوگا ثواب،  اور ٹلے گا عذاب      پاؤ گے بخششیں ،  قافلے میں  چلو

جو کہ مفقود ہو وہ بھی موجود ہو             اِنْ شاءَ اللہ چلیں ،  قافلے میں  چلو        (وسائل بخشش ص۶۷۷، ۶۷۲، ۶۷۳)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

حضور غوث اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کی عید:

اللہ عَزَّوَجَلَّکے  مقبول بندوں کی ایک ایک ادا ہمارے لئے موجب صد درسِ عبرت ہوتی ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ ہمارے حضور سَیِّدُنا غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَمکی شان بے حد اَرفع واعلٰی ہے ،  اِس کے  باوجودآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہمارے لئے کیا چیز پیش فرماتے ہیں ! سنئے اور عبرت حاصِل کیجئے ۔   ؎

خلق گَوید کہ فر د ا روزِ عید اَسْت           خوشی دَررُوحِ ہر مؤمن پدید اَسْت

دَراں رَوزے کہ بااِیماں بمیرم            مِرادَر مُلک خودآں رَوزِ عید اَسْت

یعنی  ’’ لوگ کہہ رہے ہیں ،  ’’ کل عید ہے!کل عید ہے! ‘‘ او رسب خوش ہیں ۔ لیکن میں  تو جس دِن اِس دنیا سے اپنا اِیمان سلامت لے کر گیا ،  میرے لئے تو وُہی دِن عید ہوگا ۔ ‘‘

            سُبْحٰنَ اللہِ !( عَزَّوَجَلَّ)  سُبْحٰنَ اللہِ !( عَزَّوَجَلَّ) کیا شانِ تقوی ہے ! اتنی بڑی شان کہ اولیاءِ کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کے  سردار! اور اِس قَدَر تواضع واِنکِسار ! ! اس میں  ہمارے لئے بھی دَرْسِ عبرت ہے اور ہمیں  سمجھا یا جا  رہا ہے کہ خبردار! ایمان کے  مُعامَلے میں  غفلت نہ کرنا ، ہر وَقت ایمان کی حِفاظت کی فِکر میں  لگے رہنا،  کہیں ایسا نہ ہوکہ تمہاری غفلت اور معصیت کے  سَبَب ایمان کی دَولت تمہارے ہاتھ سے نکل جا ئے ۔

رضا  ؔ   کا     خاتمہ     بِالْـخیر    ہوگا

اگر رحمت تری شامل ہے یاغوث          (حدائقِ بخشش ص۲۶۳)

ایک ولی کی عید:

حضرت سَیِّدُنا شیخ نجیب الدین مُتَوَکِّل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ،  حضرتِ سیِّدُنا شیخ بابا فرید الدین گنج شکر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے  بھائی اور خلیفہ ہیں ، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کالقب مُتَوَکِّل ہے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ 70برس شہر میں  رہے اور کوئی ظاہری ذَرِیعۂ مَعَاش نہ ہونے کے  باوجود اہل وعیال نہایت اطمینان سے زندگی بسر کرتے رہے۔ ایک بار عید کے  دِن آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے  گھر میں  بہت سے مہمان جمع ہوگئے ،  گھر میں  خورد و نوش (یعنی کھانے پینے)  کا کوئی سامان نہیں تھا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ بالاخانے پر جا  کر یادِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں  مشغول ہوگئے اور دِل ہی دل میں  یہ کہہ رہے تھے:   ’’ آج عید کا دِن ہے اور میرے گھر مہمان آئے ہوئے ہیں ۔ ‘‘  اچانک ایک

Index