گے کہ میں نے تو اُس کا ایک بھی کام نہیں کیا، اب وہ بھلا میرا کام کیسے کرے گا! اگر آپ نے ہمت کرکے بات کی اور اُس نے کام نہ کیا تب بھی آپ شکوہ نہیں کرسکیں گے، کیوں کہ آپ نے بھی تو اپنے اُس دوست کا کام نہیں کیا تھا۔
اب ذرا ٹھنڈے دِل سے غور کیجئے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّنے کتنے کتنے کام بتائے ، کیسے کیسے اَحکام جا ری فرمائے، مگرہم اُس کے کون کون سے حکم پر عمل کرتے ہیں؟غور کرنے پر معلوم ہو گا کہ اُس کے کئی اَحکامات کی بجا آوَری میں ہم نے غفلت سے کام لیا ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّکرے بات سمجھ میں آگئی ہو کہ خود تو اپنے پروَرْدگار عَزَّوَجَلَّکے حکموں پرعمل نہ کریں ، مگروہ کسی بات (یعنی دُعا) کا اثرظاہرنہ فرمائے توشکوہ و شکایت لے کر بیٹھ جا ئیں ۔ دیکھئے نا!آپ اگر اپنے کسی جگری دَوست کی کوئی بات بار بار ٹالتے رہیں تو ہوسکتا ہے کہ وہ آپ سے دوستی ہی ختم کر دے ، لیکن اللہ عَزَّوَجَلَّبندوں پر کس قدر مہربان ہے کہ لاکھ اُس کے فرمانِ عالی کی خلاف وَرزی کریں ، پھر بھی وہ اپنے بندوں کی فہرس سے خارِج نہیں کرتا، لطف وکرم فرماتا ہی رہتا ہے۔ذرا غور تو فرمائیے! جوبندے اِحسان فراموشی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اگر وہ بھی بطورِ سزا اپنے اِحسانات ان سے روک لے توان کا کیا بنے ؟یقینا اُس کی عنایت کے بغیر بندہ ایک قدم بھی نہیں اُٹھاسکتا، ارے! وہ اپنی عظیم الشان نعمت ہوا جو کہ بالکل مفت عطا فرما رکھی ہے اگرچند لمحوں کیلئے روک لے تو لاشوں کے اَنبار لگ جا ئیں !!
قبولیت دُعا میں تاخیر کا ایک سبب:
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!بسا اَوقات قبولیت دُعا کی تاخیر میں کافی مصلحتیں ہوتی ہیں جو ہماری سمجھ میں نہیں آتیں ۔ حضور، سراپا نور، فیض گنجور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ پرسرور ہے: جباللہ عَزَّوَجَلَّکا کوئی پیارا دُعا کرتا ہے تو اللہ تَعَالٰی جبرئیل (عَلَیْہِ السَّلَام) سے ارشاد فرماتا ہے: ’’ ٹھہرو! ابھی نہ دو تاکہ پھر مانگے کہ مجھ کو اِس کی آواز پسند ہے۔ ‘‘ اور جب کوئی کافریا فاسق دُعا کرتا ہے ، فرماتا ہے، ’’ اے جبرئیل (عَلَیْہِ السَّلَام) ! اِس کاکام جلدی کردو، تاکہ پھر نہ مانگے کہ مجھ کو اِس کی آواز مکروہ (یعنی ناپسند ) ہے۔ ‘‘ (کَنْزُ الْعُمّال ج۲ص۳۹حدیث۳۲۶۱، اَحْسَنُ الْوِعَاء ص۹۹)
نیک بندے کی دعا قبول ہونے میں تاخیر کی حکمت (حکایت) :
حضرت سَیِّدُنا یَحْیٰ بن سعید بن قطان(عَلَیْہِ رَحْمَۃُ المَنّان) نے اللہ عَزَّوَجَلَّکا کو خواب میں دیکھا، عرض کی: اِلٰہیعَزَّوَجَلَّ!میں اکثر دُعا کرتا ہوں اور تو قبول نہیں فرماتا؟حکم ہوا: ’’ اے یَحْیٰ! میں تیری آواز کو پسند کرتا ہوں ، اِس واسطے تیری دُعا کی قبولیت میں تاخیر کرتا ہوں ۔ ‘‘ (رسالہ قُشریہ ص۲۹۷، اَحْسَنُ الْوِعَاء ص۹۹)
’’ فضائلِ دعا ‘‘ صفحہ97 میں آدابِ دُعا بیان کرتے ہوئے حضرتِ رئیسُ الْمُتَکَلِّمِین مولانانقی علی خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنفرماتے ہیں :
جلدی مچانے والے کی دُعا قبول نہیں ہوتی!:
(دعا کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ) دُعا کے قبول میں جلدی نہ کرے۔ حدیث شریف میں ہے کہ خدائے تعالیٰ تین آدمیوں کی دُعا قبول نہیں کرتا۔ایک وہ کہ گناہ کی دُعامانگے۔دوسرا وہ کہ ایسی بات چاہے کہ قطع رِحم ہو۔تیسرا وہ کہ قبول میں جلدی کرے کہ میں نے دُعا مانگی اب تک قبول نہیں ہوئی۔ ( مسلم ص۱۴۶۳حدیث۲۷۳۵)
اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ ناجا ئز کام کی دُعا نہ مانگی جا ئے کہ وہ قبول نہیں ہوتی۔نیز کسی رِشتے دار کا حق ضائع ہوتا ہوایسیدُعا بھی نہ مانگیں اور دُعاکی قبولیت کیلئے جلدی بھی نہ کریں ورنہ دُعا قبول نہیں کی جا ئے گی۔
اَحسَنُ الْوِعَاءِ لِاٰدابِ الدُّعاءِپر اعلٰی حضرت ، امامِ اَہلِ سُنَّت ، مو لانا شاہ احمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰننے حاشیہ تحریر فرمایا ہے اور اس کا نام ذَیلُ الْمُدَّعاءِ لِاَحسَن الْوِعاءِ رکھا ہے ۔ مکتبۃُ المدینہ نے تخریج و تسہیل کے ساتھ اِسے ’’ فضائلِ دعا ‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔اسی کتاب کے حاشیے میں ایک مقام پر دُعا کی قبولیت میں جلدی مچانے والوں کو اپنے مخصوص اور نہایت ہی علمی انداز میں سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
اَفسروں کے پاس تو بار بار دھکے کھاتے ہو مگر۔۔۔
سگانِ دُنیا (یعنی دُنیوی اَفسروں ) کے اُمیدواروں (یعنی اُن سے کام نکلوانے کے آرزو مندوں ) کو دیکھا جا تا ہے کہ تین تین برس تک اُمیدواری (اور انتظار) میں گزارتے ہیں ، صبح وشام اُن کے دروازوں پر دَوڑتے ہیں ، (دَھکے کھاتے ہیں ) اور وہ (اَفسران) ہیں کہ رُخ نہیں ملاتے، جواب نہیں دیتے، جھڑکتے، دِل تنگ ہوتے، ناک بھوں چڑھاتے ہیں ، اُمیدواری میں لگایا تو بیگار(بے کار محنت) سرپرڈالی، یہ حضرت گرہ (یعنی اُمید وار جیب ) سے کھاتے، گھر سے منگاتے، بیکار بیگار (فضول محنت) کی بلا اُٹھاتے ہیں ، اور وہاں ( یعنی افسروں کے پاس دھکے کھانے میں ) برسوں گزریں ہنوز (یعنی ابھی تک گویا) روزِ اوّل(ہی) ہے، مگر یہ( دنیوی افسروں کے پاس دھکے کھانے والے ) نہ اُمیدتوڑَیں ، نہ (افسروں کا ) پیچھا چھوڑَیں ۔ اور اَحْکَمُ الْحَاکِمِین، اَکْرَمُ الْاَکْرَمِیْن عَزَّ جَلَالُہٗکے دروازے پراَوّل تَو آتا ہی کون ہے! اور آئے بھی تو اُکتاتے ، گھبراتے ، کل کا ہوتا آج ہوجا ئے، ایک ہفتہ کچھ پڑھتے گزرا اور شکایت ہونے لگی، صاحب! پڑھا تو تھا، کچھ اَثر نہ ہوا!یہ اَحمق اپنے لئے اِجا بَت (یعنی قبولیت ) کا دروازہ