نہ نزدیک آئے رِیا یاالٰہی (وسائلِ بخشش ص۱۰۶)
حضرتِ سیِّدُنا مالِک بن دینار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّارنے چالیس سال کے دَوران کبھی کھجور نہیں کھائی ۔ چالیس برس بعد آپ کو جب کھجور کھانے کی خوب خواہش ہوئی تو نفس کشی کے لئے مسلسل آٹھ دن روزے رکھے۔ پھر کھجوریں خرید کر دن کے وقت بصرہ شریف کے ایک مَحَلّے کی مسجِد میں داخل ہوئے، ابھی کھانے کیلئے کھجوریں نکالی ہی تھیں کہ ایک بچّہ چلّا اُٹھا ، اباّ جا ن ! مسجِد میں یہودی آگیا ہے ! اُس کے والِد صاحِب یہودی کا نام سُن کر ہاتھ میں ڈنڈا لئے چڑھ دوڑے مگر آتے ہی آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو پہچان لیا اور معذِرت کرتے ہوئے عَرض کی: حضور! بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے مَحَلَّے میں سارے مسلمان روزہ رکھتے ہیں یہودیوں کے عِلاوہ دن کے وقت یہاں کوئی نہیں کھاتا ، اِسی لئے بچے کو آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے یہودی ہونے کا شبہ گزرا۔ براہِ کرم ! آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس کی خطا مُعاف فرمادیجئے۔ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے عالَمِ جوش میں فرمایا: بچوں کی زَبان ’’ غیبی زَبان ‘‘ ہوتی ہے ۔ پھرقسم کھائی کہ اب کبھی کھجور کھانے کا نام نہ لوں گا۔ (تذکرۃُالاولیاء ج ۱ ص ۵۲)
گوشت کی خوشبو سے ہی گزارہ کرلیا:
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے ! ہمارے بُزُرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْناپنے نفس کو کس طرح مارتے تھے۔ سیِّدُ نا مالک بن دینار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّارکی نفس کشی کے کیا کہنے ! آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِبرسوں تک کوئی لذیذ چیز نہیں کھاتے تھے ۔عموماً دن کو روزہ داررہ کر روکھی روٹی سے افطار کا معمول تھا۔ ایک بارنفس کی خواہش پر گوشت خریدا اور لے کر چلے، راستے میں سونگھا اور فرمایا: ’’ اے نفس! گوشت کی خوشبو سونگھنے میں بھی تو لطف ہے! بس اِس سے زیادہ اِس میں تیرا حصہ نہیں ۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ گوشت ایک فقیر کو دیدیا۔ پھر فرمایا: اے نفس! میں کسی عداوت کے باعث تجھے اذیت نہیں دیتا میں توصِرْف اِس لئے تجھے صَبْر کا عادی بنا رہا ہوں کہ رِضائے الٰہیعَزَّوَجَلَّکی لازَوال دولت نصیب ہوجا ئے۔ (تذکرۃُ الاولیاء ج۱ص۵۱) یہ بھی معلوم ہوا کہ پہلے کے مسلمان نفل روزوں سے بہت مَحَبَّت کیا کرتے تھے کہ بصرہ شریف کے ایک پورے مَحَلّے کاہر مسلمان روز ہی روزہ رکھا کرتا !
نادان بچوں کی طرف سے نیکی کی دعوت:
حضرت سیِّدُنا مالِک بن دینارعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّارکا یہ فرمانا کہ بچوں کی زَبان ’’ غیبی زَبان ‘‘ ہوتی ہے ۔ نہایت ہی پُر مغز ارشاد ہے ۔ واقعی نادان بچوں کی باتوں اور حرکتوں میں بارہا عبرت کے مدنی پھول پائے جا تے ہیں ۔ اِتفاق سے بیان کردہ حکایت نمبر12 سگِ مدینہ عُفِیَ عَنہُ ( یعنی راقِمُ الحُرُوف) نے بابُ المدینہ کراچی میں ایک اسلامی بھائی کے گھر پر 9 شَوّالُ المُکرَّم ۱۴۲۲ھ کو تحریرکرنے کی سعادت حاصل کی ۔ طعام کے وَقت صاحب خانہ کا مَدَنی منا اور مَدَنی منی بھی کھانے میں شریک ہوگئے۔ ان دونوں نے کھانے کے دوران حرص و طمع، بے جا لڑائی، آبروریزی، بے صبری، چغلی، حسد، حُبِّ جا ہ، ریاکاری، مصیبت کا بے ضرورت تذکرہ اور فضول گوئی وغیرہ سے مُتَعَلِّق مجھے خوب درس دیا !! آپ شاید سوچ میں پڑگئے ہوں گے کہ ناسمجھ بچے اتنے سارے عنوانات پر کس طرح درس دے سکتے ہیں ! ان دُرُوس کا راز یہ ہے کہ وہ اس طرح کی حرکتیں کرنے لگے جس سے مَدَنی ذِہن رکھنے والا انسان چاہے تو بہت کچھ سیکھ سکتا ہے ۔مَثَلاً اُنہوں نے ضرورت سے کہیں زِیادہ کھانا اپنی اپنی رِکابی میں نکالا، کچھ کھایا، کچھ گرایا اورکچھ رکابی ہی میں چھوڑ دیا ۔ ان کی اس حرکت سے یہ سیکھنے کو ملا کہ اپنی رکابی میں ضَرورت سے زیادہ کھانا ڈال لینا یہ حرص و طمع کی علامت اور نادان بچوں کا کام ہے، بڑوں کو ایسا نہیں کرنا چاہئے، گرا ہوا کھانا یوں ہی چھوڑدینے کے بجا ئے اٹھا کر کھا لینا چاہئے، کھا کربرتن چاٹ لینا سنت ہے، بچے اگر چِہ سنت کا ترک کر دیں بڑوں کو ایسا نہیں کرنا چاہئے۔مَدَنی مُنَّے نے ٹھنڈے مشروب کی ڈیڑھ لیٹر کی بوتل میں سے اپنے لئے پورا گلاس بھر لیا تو اس پر مَدَنی مُنّی احتجا ج کرنے لگی یہاں تک کہ پہلے بوتل اٹھا کر میرے قریب رکھی مگر اطمینان نہ ہوا تو وہاں سے اٹھا کر کمرے کے باہر کسی اور کی تحویل میں دے آئی۔ اس ’’ جنگ ‘‘ کے ذَرِیعے گویا دونوں نے حرص پردرس دیا ۔ چونکہ دونوں میں ٹھن گئی تھی لہٰذا اب ایک دوسرے کے ’’ عیوب ‘‘ اُچھالنے لگے ، گویا یوں سمجھا رہے تھے کہ دیکھو!ہم نادان ہیں اِس لئے فضول گوئی ، آبروریزی ، بے جا لڑائی اور بے صبری کا مظاہرہ کرتے اورایک دوسرے کے پول کھولتے ہیں ، اگر دانا کہلانے والا شخص بھی ایسی حَرَکات کا ارتِکاب کرے تو وہ بے وُقُوف ہوا یا نہیں ؟ ٹھیک ہے ہم اپنے منہ میاں مٹّھو بھی بن رہے ہیں ، اپنی ہی زَبان سے اپنے فضائل بھی بیان کررہے ہیں ، ایک دوسرے کی چھوٹی چھوٹی باتوں کوبھی اُچھال رہے ہیں مگر ہم تو چھوٹے ہو کرچھوٹ جا ئیں گے ، کیونکہ ہم ابھی نابالغ ہیں ۔ اگر آپ بھی ہماری طرح کی غلطیاں کرتے ہوئے گناہوں میں پڑیں گے تو ہوسکتا ہے کہ بروزِ قیامت فردِ جُرم عائد کرکے جہنَّم کاحکم سنادیا جا ئے، اگر ایسا ہوا تو آپ کو وہ صدمہ ہوگا کہ دنیا میں خود صدمے نے بھی کبھی ایسا صدمہ نہ دیکھا ہوگا!