{۶} ضرورتاً(مسجد کے اندر) اپنے رومال وغیرہ سے ناک پونچھنے میں مضایقہ نہیں ۔
{۷} مسجد کا کوڑا(کچرا) جھاڑکر کسی ایسی جگہ نہ ڈالیں جہاں بے اَدَبی ہو۔ (بہارِ شریعت ج۱ ص۶۴۷)
{۸} جوتے اُتارکرمسجِدمیں ساتھ لے جا نا چاہیں تو گرد وغیرہ باہر جھاڑ لیجئے۔ اگر پاؤں کے تلووں میں گرد کے ذَرّات لگے ہوں تورومال وغیرہ سے پونچھ کر مسجِد میں داخل ہوں ۔مسجِد میں گرد کا کوئی ذرّہ نہ گرنے پائے اِس کا خیال رکھئے۔
{۹} وضوکے بعدپاؤں وضوخانے ہی پر خشک کرلیجئے، گیلے پاؤں سے مسجدکافرش گندااورد ر یا ں میلی ہوجا تی ہیں ۔
اب میرے آقااعلٰی حضرت، امامِ اہل سنت ، مجدّدِدین وملت مولاناشاہ احمدرضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کے ملفوظاتِ شریفہ سے بعض آدابِ مسجد پیش کئے جا رہے ہیں :
{۱۰} مسجِد میں دوڑنایازورسے قدم رکھنا، جس سے دَھمک پیدا ہو منع ہے۔
{۱۱} وُضو کرنے کے بعد اَعضائے وُضوسے ایک بھی چھینٹ پانی فرش مسجد پر نہ گرے ۔(یادرکھئے!اعضائے وُضوسے وُضوکے پانی کے قطرے فرشِ مسجِد پر گرانا، ناجا ئز وگناہ ہے)
{۱۲} مسجِد کے ایک دَرَجے سے دوسرے دَرَجے کے داخلے کے وَقت(مَثَلًا صحن میں داخل ہوں تب بھی اورصحن سے اندرونی حصّے میں جا ئیں جب بھی) سیدھا قدم بڑھایاجا ئے حتیّٰ کہ اگر صف بچھی ہو اُس پربھی پہلے سیدھاقدم رکھیں اور جب وہاں سے ہٹیں تب بھی سیدھا قدم فرشِ مسجد پر رکھیں (یعنی آتے جا تے ہر بچھی ہوئی صف پر پہلے سیدھا قدم رکھیں ) یا خطیب جب منبرپر جا نے کاارادہ کرے، پہلے سیدھاقدم رکھے اور جب اُترے تو(بھی) سیدھاقدم اُتارے۔
{۱۳} مسجد میں اگرچھینک آئے توکوشِش کریں آہستہ آوازنکلے اسی طرح کھانسی ۔ سرکارِمدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسجِد میں زور کی چھینک کو نا پسند فرماتے۔اِسی طرح ڈَکارکوضبط کرناچاہیے اورنہ ہو توحتی الْاِمکان آواز دبائی جا ئے اگرچہ غیرمسجدمیں ہو۔خصوصاًمجلس میں یاکسی معظم ( یعنی بزرگ) کے سامنے بے تہذیبی ہے۔ حدیث میں ہے : ایک شخص نے دربارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں ڈَکارلی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ ہم سے اپنی ڈکار دُور رکھ کہ دنیامیں جوزیادہ مدَّت تک پیٹ بھرتے تھے وہ قیامت کے دن زیادہ مدت تک بھوکے رہیں گے ۔ ‘‘ (تِرمِذی ج۴ص۲۱۷حدیث۲۴۸۶) اورجماہی میں آوازکہیں بھی نہیں نکالنی چاہئے۔ اگر چہ مسجدسے باہر تنہا ہو کیونکہ یہ شیطان کا قہقہہ ہے۔ جماہی جب آئے حتی الاِمکان منہ بند رکھیں منہ کھولنے سے شیطان منہ میں تھوک دیتاہے۔ اگر یوں نہ رُکے تو اُوپرکے دانتوں سے نیچے کاہونٹ دبالیں اور اس طرح بھی نہ رکے توحَتَّی الاِمکان منہ کم کھولیں اور اُلٹا ہاتھ اُلٹی طرف سے منہ پر رکھ لیں ۔ چونکہ جماہی شیطان کی طرف سے ہے اور انبیاءِکرام عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاماس سے محفوظ ہیں ۔ لہٰذ ا جماہی آئے تویہ تصور کریں کہ ’’ انبیاءِکرام عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکو جماہی نہیں آتی ۔ ‘‘ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّفو راً رُک جا ئے گی۔(رَدُّالْمُحتار ج۲ ص ۴۹۸، ۴۹۹)
{۱۴} تَمَسْخُر (مسخرہ پن) ویسے ہی ممنوع ہے اور مسجِدمیں سخت ناجا ئز۔
{۱۵} مسجِد میں ہنسنامنع ہے کہ قبرمیں تاریکی(یعنی اندھیرا) لاتاہے۔موقع کے لحاظ سے تبسم(یعنی مسکرانے) میں حرج نہیں ۔
{۱۶} مسجِد کے فرش پرکوئی چیزپھینکی نہ جا ئے بلکہ آہستہ سے رکھ دی جا ئے۔ موسم گرما میں لوگ پنکھاجھلتے جھلتے پھینک دیتے ہیں (مسجدمیں ٹوپی ، چادر وغیرہ بھی نہ پھینکیں اسی طرح چادریا رومال سے فرش اس طرح نہ جھاڑیں کہ آواز پیداہو) یا لکڑی، چھتری وغیرہ رکھتے وقت دُورسے چھوڑ دیا کرتے ہیں ۔ اِس کی ممانعت ہے۔غرض مسجدکااِحترام ہر مسلمان پر فرض ہے ۔
{۱۷} مسجِد میں حدث(یعنی رِیح خارِج کرنا) منع ہے ضرورت ہو تو(جو اعتکاف میں نہیں ہیں وہ ) باہرچلے جا ئیں ۔ لہٰذا مُعتکِف کوچاہیے کہ ایامِ اعتکاف میں تھوڑا کھائے، پیٹ ہلکارکھے کہ قضائے حاجت کے وَقت کے سوا کسی وَقت اِخراجِ رِیح کی حاجت نہ ہو۔وہ اس کے لئے باہر نہ جا سکے گا۔(البتہ فنائے مسجِد میں موجود بیتُ الخلا میں رِیح خارِج کرنے کیلئے جا سکتا ہے )
{۱۸} قبلے کی طرف پاؤں پھیلاناتوہرجگہ َمنع ہے، مسجِدمیں کسی طرف نہ پھیلائے کہ یہ خلافِ آدابِ دربار ہے۔ حضرتِ ابراہیمِ اَدہم(یعنی ابراہیم بن اَدہم) رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمسجِد میں تنہابیٹھے تھے ، پاؤں پھیلا لیا ، گوشۂ مسجِد سے ہاتِف نے آواز دی: ’’ ابراہیم ! بادشاہوں کے حضورمیں یوں ہی بیٹھتے ہیں ؟ ‘‘ معاً (یعنی فوراً) پاؤں سمیٹے اور ایسے سمیٹے کہ وَقتِ انتقال ہی پھیلے۔ (انوار القدسیۃ لِلشّعرانی ج۲ص۶۷) (چھوٹے بچوں کوبھی پیار کرتے، اُٹھاتے، لٹاتے وقت احتیاط کیجئے کہ ان کے پاؤں قبلے کی طرف نہ ہوں اور متاتے(پوٹی کرواتے) وقت بھی ضروری ہے کہ اُس کا رُخ یا پیٹھ قبلے کی طرف نہ ہو)